مفت آٹا سکیم: تقسیم کے دوران ’غیر ضروری‘ رش کیوں بن جاتا ہے؟

خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ میں مفت آٹے کی تقسیم کے دوران گذشتہ روز بھگدڑ کے باعث ایک شخص کی موت ہوئی تھی۔

(انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان کی وفاقی حکومت نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومتوں کے اشتراک سے ماہ رمضان کے دوران غریب عوام کو ریلیف دینے کی غرض سے ’رمضان مفت آٹا سکیم‘ کا اجرا کیا ہے۔ تاہم تقسیم کے دوران گذشتہ روز ضلع چارسدہ میں بھگدڑ مچنے کے دوران ایک شخص کی موت ہو گئی تھی۔

خیبر پختونخوا حکومت کے مطابق مفت آٹا صوبے کے تقریباً 50 فیصد آبادی کو مہیا کیا جائے گا اور اس سکیم کے تحت وفاق سمیت صوبوں میں 60 ہزار روہے مہینہ سے کم آمدن رکھنے والے خاندانوں یا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ساتھ رجسٹرڈ خاندانوں کو شامل کیا گیا ہے۔ 

پنجاب حکومت کے مطابق اس سے صوبے میں ڈیڑھ کروڑ تک خاندان مستفید ہوں گے اور اس سکیم کے لیے حکومت کی جانب سے تقریباً 54 ارب روپے سبسڈی فراہم کی گئی ہے۔ 

انڈپینڈنٹ اردو کی ٹیم نے مفٹ آٹا سکیم کے تحت تھیلوں کی تقسیم کے طریقہ کار کو جاننے کے لیے ایک وینڈر سے فلور مل سے تقیسیم تک سفر کیا ہے۔

سب سے پہلے وینڈر کو حکومت کی جانب سے بنائے گئے آن لائن نظام کے تحت مطلع کیا جاتا ہے کہ ان کو اتنے آٹے کے تھیلے دیے جائیں گے اور وہ فلاں فلور مل سے تھیلے اٹھا کر لوگوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

عطا اللہ کا تعلق ضلع لوئر دیر سے ہے اور وہ تھیلے تقسیم کرنے والے دکانداروں میں شامل ہیں۔ عطا اللہ کے ساتھ ہم نے اپنے سفر کا آغاز کیا اور فلور مل پہنچے، جہاں پہنچتے ہی مل منیجر نے عطااللہ سے ایک حلف نامے پر دستخط لیے جس پر تھیلے تقسیم کرنے کے حوالے سے تفصیلات درج تھیں۔

منیجر نے ’آٹا ٹریکنگ ایپ‘ کے ذریعے وینڈر کو 84 تھیلے ایشو کیے، جس کی وینڈر نے اپنے موبائل فون پر اسی ایپ میں جاکر تصدیق کی۔

عطااللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ابتدا میں ہمیں 300 سے زیادہ تھیلے فراہم کیے جاتے تھے اور ہفتے میں اس کی تقسیم کے لیے تین دن مختص تھے تاہم اب اس نظام کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اب رش کم کرنے کی خاطر ہر وینڈر کو روزانہ دس دس کلو کے 84 سے 100  تھیلے فراہم کیے جاتے ہیں۔

’ایک خاندان پورے رمضان میں ایک مرتبہ دس دس کلو کے تین حاصل کر سکتا ہے۔‘

فلور مل میں تھیلوں کو گاڑی میں لوڈ کرنے کے بعد اس کا وزن کرایا گیا ڈسٹری بیوشن پوائنٹ کی طرف روانہ کر دیے گئے، جہاں عوام بڑی تعداد میں موجود تھی۔

عطااللہ کے مطابق غیر ضروری رش اس لیے بتا ہے کہ اکثر لوگوں کو آٹے کی تقسیم کا طریقہ کار کا علم نہیں ہے۔

’ہم موبائل میں ایپ کے ذریعے خواہش مند شخص کا قومی شناختی کارڈ نمبر ڈالتے ہیں تاکہ تصدیق ہو سکے کہ مذکورہ شخص اس سکیم سے مستفید ہو سکتے ہیں ہے یا نہیں؟‘

ایپ میں ایک، دو اور تین تھیلوں کا آپشن موجود ہوتا ہے جن میں سے تین کی آپشن کو کلک کیا جاتا ہے۔

رش کیوں بن جاتا ہے؟

تھیلوں کی تقسیم سے پہلے وینڈر تو اپنے موبائل ایپ میں بھی شناختی کارڈ کی تصدیق کرتا ہے لیکن بہت سے اہل افراد کو پہلے سے حکومت کی جانب سے ایک پیغام بھی موصول ہوتا ہے کہ وہ اس سکیم کے تحت تھیلے وصول کر سکتے ہیں۔

تاہم عطااللہ کے مطابق بعض لوگ ایسے بھی قطار میں کھڑے ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی اہلیت کسی بھی وجہ سے چیک نہیں کی ہوتی یا ان کو حکومت کی جانب سے پیغام موصول نہیں ہوا ہوتا۔

’رش سے بچنے ہی کے لیے حکومت نے یہ نظام بنایا ہے کہ ڈسٹری بیوشن پوائنٹ جانے سے پہلے 8070  پر اپنا شناختی کارڈ نمبر بھیج کر اہلیت چیک کروائی جائے لیکن بہت سے لوگ بغیر چیک کیے ڈسٹری بیوشن پوائنٹ پہنچ جاتے ہیں۔‘ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رش اور بھگدڑ کی دوسری وجہ عطااللہ کے مطابق یہ بھی ہے کہ بعض ایسے لوگ بھی قطار میں کھڑے ہوتے ہیں جنھوں نے پہلے سے اس سکیم کے تحت تھیلے لیے ہوتے ہیں لیکن وہ دوسری بار اس امید سے آتے ہیں کہ شاید ان کو اضافی تھیلے مل سکیں، جو کسی طور ممکن نہیں ہے۔ 

ڈسٹری بیوشن پوائنٹ پر کھڑے ہوکر میں نے یہ نوٹس کیا کہ مردو خواتین صبح سے تقریباً چھ گھنٹے انتظار میں کھڑے تھے اور آٹا پہنچنے کے بعد بھی گھنٹوں انتظار کرنا پڑا کیونکہ حکومت کی جانب سے موبائل ایپ کام کرنے میں وقت لیتا تھا۔

چونکہ کسی بھی شخص کو تھیلا دینے سے پہلے ایپ میں اس کی تصدیق ضروری ہے اس لیے زیادہ لوگ اسی وجہ سے انتظار میں کھڑے تھے۔

باری کے انتظار میں کھڑے روزی خان نے اپنا شناختی کارڈ صبح ہی وینڈر کو دے دیا تھا لیکن اب ان کا ایپ کام نہیں کر رہا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا: ’بارش بھی ہے اور کھڑے کھڑے تھک بھی گیا ہوں لیکن مجبوری ہے کیونکہ اس مہنگائی میں کون آٹا خرید سکتا ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان