سپریم کورٹ اصلاحات بل کابینہ منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں پیش

وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد از خود نوٹس کے اختیارات میں ترامیم کا یہ مسودہ منگل ہی کی رات قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیش کر دیا گیا ہے۔

پاکستان کی حکومت نے سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے اختیارات میں ترامیم کا مسودہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا (تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان کی وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے اختیارات میں ترامیم کا بل وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں بھی پیش کر دیا ہے۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پراسیجر بل 2023 منگل کو وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی میں پیش کیا۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’سپریم کورٹ کے جو قوانین ہیں وہ آئیں اور کوئی قانون اگر بنایا گیا ہو تو اس کے تابع ہوں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’آرٹیکل 184/3 کے اختیارات کے استعمال پر بہت زیادہ تنقید ہوتی رہی ہے، اور اس میں جو سرفہرست ہیں وہ بار باڈیز ہیں۔‘

اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ ’ایسے ادوار بھی آئے جب ایک، ایک دن میں سپریم کورٹ نے انتظامی حوالوں سے دو، دو، تین، تین بلکہ چار، چار از خود نوٹسز لیے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہسپتال کے باہر پارکنگ کی مناسب سہولیات نہیں ہیں، گلی میں پانی کھڑا ہے گندا، کسی مسافر کے سامان سے کوئی شیشی نکل آئی ہے۔ اس طرح کے معاملات پر بھی سو موٹو نوٹسز لیے گئے۔ جو بلا شبہہ تقدس اور تکریم میں اضافہ کرنے کا باعث نہیں بنے۔‘

وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ ’ان تمام معاملات پر وزارت قانون اور انصاف نے اس بل کی تجویز دی جسے کابینہ کے سامنے پیش کیا گیا جہاں کابینہ نے اسے متفقہ طور پر منظور کرنے کے بعد پارلیمان میں پیش کرنے کے لیے بھیجا ہے۔‘

سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے ازخود نوٹس ترمیمی بل لا اینڈ جسٹس کمیٹی کو بھجوا دیا ہے۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے لا اینڈ جسٹس کا اجلاس بدھ کو ہو گا۔ کمیٹی سے منظوری کے بعد بل کو ایوان میں حتمی رپورٹ کے ساتھ پیش کیا جائے گا۔

قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد جمعرات کو سینیٹ میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پراسیجر بل میں کیا ہے؟

قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے والے مسودے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین جج از خود نوٹس کا فیصلہ کریں گے۔ اس کے علاوہ مسودے میں از خود نوٹس کے فیصلے پر 30 دن کے اندر اپیل دائر کرنے کا حق دینے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔

مجوزہ ترامیم کے مسودے کے مطابق اپیل دائر ہونے کے 14 روز کے اندر سماعت کے لیے مقرر کرنا ہو گی۔

مسودے کے مطابق ’نہ صرف ازخود نوٹس کیسز بلکہ کاز لسٹ، بینچوں کی تشکیل اور اپیلوں کا معاملہ بھی سینیئر ججوں کی کمیٹی دیکھے گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وفاقی کابینہ سے منظور ہونے والے مسودے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’کمیٹی کا فیصلہ کثرت رائے سے ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ آرٹیکل 184/3 کے تحت آنے والی درخواستوں کے قابل سماعت ہونے کے معاملے پر بھی کمیٹی فیصلہ کرے گی۔‘

اس سے قبل پیر کو جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے الیکشن سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا تھا کہ ’وقت آگیا ہے کہ 184/3 کے اختیار سماعت کو ریگولیٹ کیا جائے۔‘

اختلافی نوٹ میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ ’چیف جسٹس کے ’ون مین پاور شو‘ کے اختیار پر نظرثانی کرنا ہو گی۔ سپریم کورٹ کو صرف ایک شخص کے فیصلوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔‘

’سپیشل بینچ، آئینی معاملات پر بینچ کی تشکیل، ازخود نوٹس کے اختیار کے بارے میں فل کورٹ کے ذریعے پالیسی بنانا ہو گی۔‘

اس کے بعد منگل کو وفاقی کابینہ کا اجلاس وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا، جس میں سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کا مسودہ پیش کیا گیا۔

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ’حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘

فواد چوہدری نے اپنی ایک ٹویٹ میں حکومت کے اس عمل کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’مجوزہ ترامیم کو مسترد کرتے ہیں، یہ حق صرف منتخب پارلیمان کو ہے کہ وہ ایک تفصیلی بحث کے بعد کوئی بھی ترمیم کرے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’عدلیہ کو تقسیم کرنے کی کوشش کی سخت مذمت کرتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان