خیبرپختونخوا میں سرکاری سوشل میڈیا انفلوئنسرز کیا کام کر رہے ہیں؟

خیبر پختونخوا مین سابقہ پی ٹی آئی حکومت کے دوران شروع کیے جانے والے سوشل میڈیا انفلوئنسرز منصوبے کے ایک اہلکار کے مطابق وہ حکومت وقت کے لیے کام کرتے ہیں نہ کہ کسی مخصوص سیاسی جماعت کے لیے۔

(اے ایف پی)

خیبر پختونخوا کی نگران حکومت نے پاکستان تحریک انصاف کی سابق حکومت کے دوران حکومتی منصوبوں کی تشہیر اور ’جعلی خبروں کی روک تھام‘ کے لیے بھرتی کیے گئے 1300 سے زیادہ نوجوانوں کو ملازمتوں سے فارغ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

مذکورہ منصوبہ پی ٹی آئی حکومت کے دوران صوبائی محمکہ اطلاعات کا تھا، جس نے نگران حکومت کے دوران صوبائی محکمہ خزانہ کو ایک مراسلے کے ذریعے ان ملازمین کی تنخواہیں روکنے کی ہدایت کی ہے۔

خیبر پختونخوا میں ضلعے اور یونین کونسل کی سطح پر سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے طور کام کرنے والے ان نوجوانوں کو ماہانہ25  ہزار روپے ادا کیے جاتے تھے۔

محکمہ اطلاعات کے خط میں لکھا گیا ہے: ’گذشتہ حکومت کے خاتمے اور نگران حکومت کے آنے کے بعد یہ منصوبہ اپنی افادیت کھو چکا ہے کیونکہ اس منصوبے کی وجہ سے صاف اور شفاف انتخابات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘

ترقیاتی منصوبہ ایک خط پر ختم ہو سکتا ہے ؟

خیبر پختونخوا میں ترقیاتی منصوبوں کی منظوری کے لیے بنائے گئے ادارے پراونشل ڈیویلپمنٹ ورکنگ پارٹی (پی ڈی ڈبلیو ڈی) نے2021  میں مذکورہ منصوبے کی جانچ پرکھ کے بعد منظوری دی تھی۔

اس کی مجموعی لاگت87  کروڑ روپے سے زیادہ تھی اور منصوبے میں ایک پراجیکٹ ڈائریکٹر اور ایک اکاؤنٹنٹ سمیت کمیونیکیشن کنسلنٹسٹ بھی شامل ہونا تھے، جن کی تنخواہیں ایک سے دو لاکھ روپے کے درمیان تھیں۔

منصوبے کے تحت کام کرنے والوں کے لیے سوشل میڈیا پر کام کرنے کا تجربہ شرط تھی، جبکہ تعلیمی قابلیت اہلیت میں شامل نہیں تھی۔ 

حذب اختلاف کی جماعتیں شروع سے ہی اس منصوبے پر تنقید کرتی اور پی ٹی آئی حکومت پر دیگر جماعتوں کی سوشل میڈیا پر تضحیک کا الزام لگاتی رہی ہیں۔

سابق صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا  کے خیال میں نگران حکومت کے پاس اس قسم کے کسی منصوبے کو محض ایک خط کے ذریعے بند کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

تیمور سلیم جھگڑا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’پہلے تو موجودہ نگران حکومت نے یہ جھوٹ بولا کہ پانچ ہزار افراد کو بھرتی کیا گیا جبکہ درست تعداد 1309  ہے، جس کا ذکر منصوبے کے پی سی ون میں بھی موجود ہے۔

’دوسری جانب نگران حکومت کی حمایت یافتہ وفاقی حکومت اسی طرح کا ایک منصوبہ شروع کر رہی ہے جس میں60  ہزار نوجوانوں کو بھرتی کیا جائے گا۔‘

تیمور سلیم جھگڑا نے مزید بتایا کہ نگران حکومت کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی منصوبے کو شروع یا ختم کرے۔ ’لیکن مسئلہ یہ ہے کہ نگران حکومت اپنے کام کے علاوہ باقی تمام کام کر رہی ہے۔‘

خاتمے کا طریقہ کار

یہی سوال جب ہم نےمحکمہ پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ کے ایک اہلکار سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ترقیاتی منصوبوں کی منظوری کے لیے حکومت کی طرف سے ایک طریقہ کار وضع کیا گیا ہے اور اسی کے مطابق تمام منصوبوں کی منظوری دی جاتی ہے۔ 

انھوں نے بتایا: ’سب سے پہلے متعلقہ شعبہ منصوبے کی پی سی ون پی ڈی ڈبلیو ڈی کو پیش کرتا ہے، جہاں سے منظوری کے بعد اس منصوبے پر کام شروع کیا جاتا ہے۔‘

محکمہ پلاننگ اینڈ ڈولمپنٹ کے ترقی یافیاتی منصوبوں سے متعلق ایک مینول کے مطابق کسی بھی حکومتی منصوبے کو ختم کیے جانے کی صورت میں وجوہات کا پیش کیا جانا ضروری ہے

اسی حوالے سے نگران وزیر خزانہ ملک حمایت اللہ مایار سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 حمایت اللہ مایار کے پرسنل سیکریٹری شعیب درانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ محکمہ اطلاعات کی جانب سے جاری کردہ خط نگران وزیر خزانہ کو نہیں بلکہ سیکریٹری خزانہ کو لکھا گیا ہے، اس لیے وزیر خزانہ کیا موقف دے سکتے ہیں؟   

شعیب درانی کے خیال میں نگران وزیر خزانہ کا موقف دینا پروٹوکول کی خلاف ورزی ہو گی۔

بھرتی ہونے والے افراد کیا کہتے ہیں؟

منصوبے سے منسلک رہنے والے مومن خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تمام سوشل میڈیا انٹرنز پی ٹی آئی کے نہیں بلکہ حکومت کے ملازمین ہیں۔

انھوں نے مزید بتایا جب پی ٹی آئی کی حکومت تھی، تو ہم صوبے میں کسی بھی ترقی یافتہ منصوبے یا عوامی فلاح کے کام کی سوشل میڈیا پر تشہیر کرتے تھے لیکن اب نگران حکومت آئی ہے، تو نگران حکومت کی تعریف کرتے ہیں تو ہم کیسے پی ٹی آئی  ٹیم کے ہوئے؟

مومن خان کے دعوے کی تصدیق اس منصوبے کے فیس بک پیج دیکھ کر ہو سکتی ہے، جہاں ماضی کے برعکس اب صرف نگران حکومت کی تعریفیں نظر آتی ہیں۔

مومن کے مطابق انہیں تنخواہیں باقاعدگی سے مل رہی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان