سیاسی استحکام بذریعہ مذاکرات اور شفاف الیکشن

سیاسی استحکام کے بغیر معاشی و داخلی استحکام ممکن نہیں اور سیاسی استحکام کا واحد حل مذاکرات کے ذریعے الیکشن کا شفاف اور غیر جانبدار انعقاد ہے۔

الیکشن کمیشن نے بھی سپریم کورٹ کے حکم تعمیل کرتے ہوئے پنجاب میں انتخابات کا نیا شیڈول جاری کرکے بال حکومتی کورٹ میں پھینک دی ہے (پبلک ڈومین)

پاکستان اس وقت بدترین سیاسی، معاشی، آئینی، اور سلامتی کے بحرانوں کا شکار ہے۔

یہ جملہ ہم تقریباً ہر روز سن رہے ہیں لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ ان مسائل کے حل کے بجائے نئے مسائل سامنے آجاتے ہیں۔

اس وقت جس صورت حال کا سامنا پاکستان کر رہا ہے وہ انتہائی سنجیدہ اور حل طلب ہے۔

ایک طرف سیاسی افراتفری ہے، تو دوسری جانب قومی سلامتی کا اہم مسئلہ بھی درپیش ہے۔

آئینی بحران کی بات کی جائے تو اس وقت سب سے اہم معاملہ جو ملکی سیاست میں گذشتہ کئی دنوں سے زیر بحث ہے وہ سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن سے متعلق ازخود نوٹس کیس کا ہے۔

ازخود نوٹس کیس آغاز سے ہی متنازع ہوگیا تھا جب نو رکنی لارجر بینچ میں سے چار ججز علیحدہ ہو گئے۔

اس کے بعد پانچ رکنی بینچ نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی اور 2-3 کی نسبت سے الیکشن کے جلد ازجلد انعقاد کا فیصلہ جاری کیا۔ لیکن فیصلے کے آنے بعد کیس مزید متنازع ہوگیا۔ حکومتی ارکان نے فیصلے میں سابقہ سماعتوں میں جاری دو ججز کے اختلافی نوٹ کی بنا پر فیصلے کو 3-4 کی نسبت سے اپنے حق میں قرار دے دیا۔

اس کے بعد ایک اور سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل جو ازخود نوٹس بینچ سے علیحدہ ہوگئے تھے، نے ریمارکس دیے کہ فیصلہ 3-4 کی نسبت سے ہے۔ جس کے بعد فیصلے سے متعلق شکوک شبہات میں مزید اضافہ ہو گیا۔

اب حال ہی میں اسی بینچ کے متعلق جسٹس اطہر من اللہ کا اختلافی نوٹ منظر عام پر آیا ہے جس میں ان کے نوٹ سے سپریم کورٹ کے اپنے اندر اختلافات کی شدت میں اضافہ دکھائی دیا۔

جسٹس اطہر من اللہ کے اپنے نوٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ فیصلہ 3-4 کی نسبت سے آیا۔ اور ان کے نوٹ میں ملکی سیاسی و آئینی صورتحال سے متعلق سخت ریمارکس شامل ہیں۔ اختلافی نوٹ میں انہوں نے معاملے پر فل کورٹ کی تجویز کا اظہار بھی کیا ہے۔

اس ساری صورت حال سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ میں اختلافات انتہائی شدید سٹیج پر پہنچ چکے ہیں اور اس وقت پاکستان میں عدلیہ کا کردار بھی کافی متنازع ہوچکا ہے۔

ان حالات میں حکومت اور عدلیہ کے درمیان ہونے والی محاذ آرائی بھی کافی شدت اختیار کرچکی ہے۔

جہاں سب سے پہلے حکومت نے سپریم کورٹ میں ازخود نوٹس کے حوالے سے قوانین کے متعلق قانون سازی کرکے چیف جسٹس کے اختیارات کو محدود کر دیا وہیں حال ہی میں الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے حکم کے خلاف پنجاب میں الیکشن کی تاریخ کو 30 اپریل کو ہونے والے صوبائی انتخابات کو آٹھ اکتوبر تک موخر کر دیا تھا۔

الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ نے درخواست کی سماعت کی اور اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا اور ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ الیکشن کی تاریخ بھی دے دی۔

سپریم کورٹ نے پنجاب میں الیکشن  کے لیے 14 مئی کی تاریخ رکھ لی اور الیکشن کمیشن کی معاونت  کے لیے متعلقہ اداروں کو ہدایات بھی جاری کر دیں۔

سپریم کورٹ کی جانب سے پنجاب میں الیکشن کے التوا کے خلاف اس کیس میں بھی متنازع پانچ رکنی بینچ میں سے دو ججز نے سماعت سے معذرت کر لی۔

جس پر حکومت نے فل کورٹ کی استدعا بھی کردی لیکن چیف جسٹس نے درخواست مسترد کر لی اور بقیہ تین ججز کے ساتھ ایک طویل سماعت کے بعد مندرجہ بالا فیصلہ سنا دیا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے انتخابات کے اعلان کے بعد ن لیگ اور ان کے اتحادیوں نے نہ صرف اس فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا بلکہ تین رکنی بینچ کے خلاف قومی اسمبلی سے قرارداد بھی منظور کر لی اور فل کورٹ کی تشکیل کا مطالبہ بھی کردیا۔

اس سارے منظرنامے میں ایک اورچیز واضح ہے کہ اس وقت پاکستان میں سیاستدان رہنماؤں سے لے کر اب اہم عدالتی اشخاص بھی انتہائی متنازع ہوچکے ہیں۔

حتیٰ کہ نواز شریف نے بھی چیف جسٹس عمر عطا بندیال سمیت تین رکنی بینچ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ اب ان کے اس مطالبے پر عمل ہوگا یا نہیں یہ تو وقت بتائے گا۔

اس وقت یہ بات بھی زیربحث ہے کہ آیا سپریم کورٹ کے پاس انتخابات کے اعلان کا اختیار ہے بھی یا نہیں؟

دوسری اہم چیز ہے کہ وفاقی کابینہ بشمول پارلیمان نے سپریم کورٹ کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا ہے۔

اب اس انکار کے بارے میں آئین کیا کہتا ہے اور اگر یہ عمل قانون کے منافی ہے تو کیا اس صورت میں وزیراعظم شہباز شریف سمیت ان کی کابینہ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہو سکتی ہے؟

اگر توہین عدالت کی کارروائی ہوتی ہے تو کیا شہباز شریف کی نااہلی کا بھی امکان ہے یا نہیں؟

جسٹس اطہر من اللہ کے اختلافی نوٹ نے ن لیگ کے ججز مخالف بیانیے میں بھی جان ڈال دی ہے۔

ایک طرف نواز شریف، مریم نواز، رانا ثنااللہ سمیت تقریباً تمام لیگی قیادت بشمول وزیراعظم شہباز شریف سپریم کورٹ کے ججز پر مسلسل تنقید کر رہے تھے تو دوسری جانب چیف جسٹس سمیت ججز کے خلاف ریفرنس کی باتیں بھی زیر گردش آ رہی تھیں، اس اختلافی نوٹ کے آنے کے بعد ن لیگ نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال صاحب سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

ن لیگ کا بھی یہی کہنا ہے کہ چیف جسٹس صاحب اس وقت کافی متنازع ہوچکے ہیں بہتر ہے وہ استعفیٰ دیں۔

اس وقت ملک میں عدلیہ کا کردار انتہائی متنازع ہو چکا ہے اور اس کی غیر جانبداری پر مسلسل سوالات اٹھ رہے ہیں۔

اتنی ساری باتوں کے بعد بھی اب تک اس بات کی کھل کر وضاحت نہیں ہوئی کہ ازخود نوٹس کیس کے فیصلے کی نسبت چار تین ہے یا تین دو؟

جسٹس اطہر من اللہ کے اختلافی نوٹ کا فیصلے پر اثر کیا پڑے گا؟

کیا الیکشن کے انعقاد پر فل کورٹ کی تشکیل کا جواز بنتا ہے اور کیا اس پر عمل بھی ہوگا؟

کیا حکومت کی جانب سے چیف جسٹس صاحب سے استعفے کا مطالبہ جائز ہے؟

اس وقت یہ سوال بھی اہم ہے کہ سپریم کورٹ میں سیاسی کیسز میں مخصوص ججز کے بینچز کیوں تشکیل دیے جارہے ہیں؟ اکثر اہم کیسز میں سینیئر ترین ججز کی غیر موجودگی صورت حال کو مزید متنازع کر رہی ہے۔

یہ بات بھی گردش میں ہے کہ سپریم کورٹ میں ایک سیاسی جماعت کو فائدہ پہنچانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔

اب ان باتوں میں حقیقت ہے یا نہیں یہ الگ بات ہے لیکن اس وقت اعلیٰ عدلیہ ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ متنازع نظر آرہی ہے اور ججز کے اندرونی اختلافات بھی لوگوں کے سامنے ہیں۔

اس ساری صورت حال میں پاکستان تحریک انصاف کافی پرسکون اور ریلیکس نظر آرہی ہے اور ان کا پرسکون ہونا بنتا بھی ہے، ایک تو الیکشن کے انعقاد کی ان کی دیرینہ خواہش کی تکمیل بھی ہو رہی ہے اور حکومت کی جانب سے الیکشن سے مسلسل راہ فرار ان  کے لیے بیانیہ بنانے میں کافی معاون ہے۔

اس وقت پی ٹی آئی اور عمران خان  کے لیے ایسے لگ رہا ہے جیسے سٹیج سیٹ ہے کیوں کہ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتیں خاص طور پر مسلم لیگ ن اور سپریم کورٹ آپس میں دست و گریباں ہے اور الیکشن کمیشن نے بھی سپریم کورٹ کے حکم تعمیل کرتے ہوئے پنجاب میں انتخابات کا نیا شیڈول جاری کرکے بال حکومتی کورٹ میں پھینک دی ہے۔

اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ الیکشن کے شفاف انعقاد  کے لیے اقدامات یقینی بنائے خاص طور فنڈز اور سکیورٹی کی فراہمی کو ممکن کرے۔ لیکن کیا وہ اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہیں یا نہیں یہ تو وقت بتائے گا۔

دوسری جانب اگر عدالتی و سیاسی معاملات کو ایک طرف رکھ کر بات کریں تو اس وقت ملک میں تاریخ کی بدترین مہنگائی کی ریکارڈ کی جا رہی ہے۔

مہنگائی کی شرح 44 فیصد سے بھی تجاوز کرچکی ہے، اب تو ایک وقت کی روٹی کے لیے غریب مر رہے ہیں اور ڈالر بھی نیچے آنے کا نام نہیں لے رہا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔

ملک میں اس وقت سلامتی کی صورت حال بھی سب کے سامنے ہے۔ غرض ہر طرف سے پاکستان اس وقت مسائل سے نبرد آزما ہے۔

ایسے میں اگر سیاسی عدم استحکام بھی اسی طرح جاری رہتا ہے تو پاکستان میں غریب کا رہنا محال ہوجائے گا۔

نوجوان ملک چھوڑ کر جانے کو ترجیح دے رہے ہیں اور اس  کے لیے اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کررہے جس کی مثال حال ہی اٹلی میں سمندر برد ہونے والے غیر قانونی تارکین وطن کی کشتی ہے جس میں درجنوں لوگ غیر قانونی طریقے سے یورپ میں داخل ہونے کی کوشش میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان سب مسائل کا ایک ہی حل ہے اور اس کے لیے سب سے پہلے ملک میں سیاسی استحکام ہونا ضروری ہے۔

سیاسی استحکام کے بغیر معاشی و سلامتی استحکام ممکن نہیں اور سیاسی استحکام کا واحد حل مذاکرات کے ذریعے الیکشن کا شفاف اور غیر جانبدار انعقاد ہے۔

اس سلسلے میں سیاسی قوتوں کو لچک کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ عمران خان نے تو اب مذاکرات کے لیے رضامندی ظاہر کردی ہے لیکن اس وقت پی ڈی ایم اتحاد میں شامل جماعتیں مذاکرات سے کترا رہی ہیں۔

اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ سب اپنی انا کو پس پردہ ڈال کر قوم ملک کی فلاح کے لیے مشترکہ کوشش کا حصہ بنیں اور درمیانی راستہ نکال کر آئین اور قانون کے مطابق الیکشن کا انعقاد کرائیں تاکہ مشکلات کی ماری اس بدنصیب عوام کو کچھ تو راحت مل سکے۔

ملک میں جاری دہشت گردی کی حالیہ لہر، معاشی چیلنجز اوربدترین مہنگائی کے باعث عوام کو درپیش مسائل کے پیش نظر قومی سلامتی کمیٹی کا ایک اہم جلاس وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت ہوا جس میں عوامی ریلیف کو فوقیت دی گئی ہے۔

یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ حکومت عوامی ریلیف  کے لیے سنجیدہ اقدامات کی کاوشوں میں مصروف ہے لیکن کیا ان اقدامات پر عمل بھی ہوگا یہ وقت بتائے گا؟

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر