سونیا حسین فلم دادل میں ایک پیشہ ور قاتلہ کا کردار کر رہی ہیں جو لیاری میں رہنے والی ایک بلوچ لڑکی ہے۔
اپنے فنی سفر میں ایک کے بعد ایک اچھوتے کردار کرنے والی سونیا حسین بلاشبہ پاکستانی کی شوبز صنعت کا بہت ہی حسین چہرہ ہیں جو کم مگر اچھے کام پر یقین رکھتی ہیں۔
عیدالفطر پر سونیا حسین اپنی فلم دادل کے ساتھ بڑی سکرین پر رونما ہونے کے لیے پر تول رہی ہیں۔
یہ فلم لیاری کی ایک بلوچ لڑکی کی کہانی ہے جو دنیا کے سامنے باکسر اور درپردہ ایک ٹارگٹ کلر ہے۔ اس فلم کی زیادہ تر عکاسی بھی لیاری ہی میں ہوئی ہے۔
سونیا حسین کا تفصیلی انٹرویو ایک جان جوکھوں کام ہے کیونکہ وہ جتنا کم کام کرتی ہیں، اس سے بھی کم انٹرویو کے لیے مانتی ہیں۔
لیکن اس مرتبہ انڈپینڈنٹ اردو کے قارئین کے لیے ہم نے انہیں ان کی فلم کے میوزک لانچ پر پکڑ ہی لیا تو ان سے انکار کرتے نہ بن پایا۔
عوام اور میڈیا کے ہجوم سے چند منٹ بمشکل ہی مل پائے لیکن ان کے ان اچھوتے کرداروں پر ہم نے ان سے بات کر ہی لی۔
باکسر جیسے منفرد کردار پر تو ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے کردار کرنا ان کا شوق ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کا کردار باکسر سے زیادہ قاتل لڑکی یا ٹارگٹ کلر کا ہے، جس کے لیے انہوں نے پستول بھی چلائی ہے جس کا انہیں پہلے کوئی تجربہ نہیں تھا لیکن شوق بہت تھا۔
سونیا نے ہنستے ہوئے کہا کہ ’کرنا تو نہیں چاہیے لیکن مزہ بہت آتا ہے اور پستول اتنی بھاری ہوتی ہے اس کا اندازہ نہیں تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ لیڈی باکسر کا کردار کرنے کے لیے انہوں نے کافی ساری فلمیں دیکھی تھیں، لیکن ان کا اس فلم میں اصل کردار ایک سیریل کلر کا ہی ہے۔
سونیا حسین کے کردار کا نام حیا بلوچ ہے اور وہ کہتی ہیں کہ بلوچی زبان کا انداز اپنانے کے سلسلے میں ایوا بی اور دیگر نے ان کی بہت مدد کی اور خود ان کو بہت زیادہ محنت کرنا پڑی۔
’لیکن جب ٹچ بٹن میں پنجابی کردار کرلیا تو بلوچ کردار بھی کرلیں گے۔‘
سونیا حسین کا کہنا تھا کہ ’ایک فن کار کی حیثیت سے جب تک آپ کوئی ایسا کردار نہیں کرتے جو آپ کے فن کی تسکین کا باعث ہو، آپ کا فن مکمل نہیں ہوتا۔‘
اس لیے ان کا خیال ہے کہ ’گلیمر والے کردار تو ہوتے ہی رہتے ہیں، چند ماہ پہلے ٹچ بٹن میں ایسا ہی کردار تھا۔‘
اس کے باوجود سونیا کو اس بات کا ڈر نہیں ہے کہ انہیں ٹائپ کاسٹ کیا جاسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 2014 میں بھی انہوں ڈراما نازو میں ایک خصوصی بچی کا کردار کیا تھا، جس کے بعد بہت مختلف کردار ملے تو اچھا کام کرنے سے فرق پڑتا ہے، لیکن کیسا کام کیا اس سے فرق نہیں پڑتا۔
’فلمیں تو بہت بنی ہے ہیں، لیکن شاید اس فلم کے ذریعے کراچی کے علاقے لیاری کا ایک مختلف منظر لوگوں کو ملے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سونیا حسین کی فلم دادل کا بیشتر حصہ لیاری میں فلمایا گیا ہے۔ اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’لیاری کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں ہیں، وہاں کے لوگ بہت اچھے ہیں، وہاں سے بہت بڑے بڑے فن کار نکلے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’لیاری میں باکسنگ کا بہت جنون ہے، وہ لوگ پھٹے ہوئے جوتے اور گلوز میں بھی کام کر کے اپنے ملک کا نام روشن کرنا چاہتے ہیں اور ایسا جذبہ ملک میں کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔‘
سونیا نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ ان افراد کی مدد کرے تاکہ دنیا بھر میں پاکستان کا نام ہو۔
سونیا کا کہنا تھا کہ ان کی خواہش رہی ہے کہ بطور اداکارہ ان کو پہچانا جائے اور جو بھی کردار ہو اس کی کوئی اہمیت ہو، وہ کوئی کردار صرف اس لیے نہیں کرنا چاہتی ہیں کہ وہ ہیروئین کا کردار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فلمیں بہت کم کرتی ہیں، اور اگر صرف بھرتی کا کردار کرنا ہے تو ڈرامے کی صنعت بہت زیادہ بڑی ہے۔
سونیا نے کہا کہ وہ فیمینسٹ بھی ہیں، اس لیے وہ چاہتی ہیں کہ خواتین ہر میدان میں برابر ہونی چاہییں۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ صرف ان کو نچایا جائے اور لوگ اس پر پیسے پھینک رہے ہوں۔
دادل کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستانی سینیما مشکل سے دوچار ہے، لوگ ہر طرح کی فلم بنا رہے ہیں، لیکن یہ وعدہ ہے کہ یہ فلم بہت الگ لگے گی اور ایسا کام کم کم ہوتا ہے۔‘
آخر میں سونیا حسین نے بتایا کہ اس فلم کے بعد اگلے سال عید پر وہ ایک پٹاخہ والا کردار کر رہی ہیں۔