سفری پابندی کے باوجود افغان وزیرخارجہ کو پاکستان آنے کی اجازت

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک کمیٹی نے افغان طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کو پاکستان اور چین کے وزرائے خارجہ سے ملاقات کے لیے چھ سے نو مئی کے دوران پاکستان جانے کی اجازت دینے پر اتفاق کیا ہے۔

افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی (درمیان) یکم فروری 2023 کو کابل میں ایک تقریب میں شرکت کے لیے آتے ہوئے (اے ایف پی)

سفارت کاروں کے مطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک کمیٹی نے افغانستان میں طالبان انتظامیہ کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کو پاکستان اور چین کے وزرائے خارجہ سے ملاقات کے لیے آئندہ ہفتے پاکستان جانے کی اجازت دینے پر اتفاق کیا ہے۔

سلامتی کونسل کی جانب سے امیر خان متقی پر طویل عرصے سے سفری پابندی عائد تھی جبکہ ان کے اثاثے بھی منجمد ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سلامتی کونسل کی 15 رکنی کمیٹی کو لکھے گئے خط کے مطابق اقوام متحدہ میں پاکستان کے مشن نے درخواست کی تھی کہ امیر خان متقی کو چھ سے نو مئی کے درمیان ’پاکستان اور چین کے وزرائے خارجہ سے ملاقات‘ کے لیے استثنیٰ دیا جائے۔

تاہم اس درخواست میں یہ نہیں بتایا گیا کہ وزرا ملاقات میں کن امور پر بات چیت کریں گے۔ اس میں کہا گیا کہ امیر خان متقی کے دورے کے تمام اخراجات پاکستان برداشت کرے گا۔

چینی اور پاکستانی حکام ماضی میں کہہ چکے ہیں کہ وہ طالبان کے زیر قیادت افغانستان کو اربوں ڈالر کے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) انفراسٹرکچر منصوبے میں خوش آمدید کہیں گے۔ سی پیک چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا حصہ ہے۔

افغانستان جنوبی اور وسطی ایشیا کے درمیان ایک اہم جغرافیائی تجارت اور ٹرانزٹ روٹ ہے اور اس کے پاس اربوں ڈالر کے معدنی وسائل موجود ہیں۔

 اگست 2021 میں 20 سال کی جنگ کے بعد امریکی قیادت میں نیٹو افواج کے انخلا کے بعد طالبان اقتدار میں آئے تھے۔

سلامتی کونسل کی کمیٹی نے گذشتہ ماہ فوری امن، سلامتی اور استحکام کے امور پر تبادلہ خیال کے لیے افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے بھی امیر خان متقی کو ازبکستان جانے کی اجازت دی تھی۔

اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن دوجارک نے کہا کہ یو این کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریش نے پیر کو دوحہ میں افغانستان کے متعلق مختلف ممالک کے خصوصی ایلچیوں کے ساتھ دو روزہ اجلاس کا آغاز کیا، جس کا مقصد ’طالبان کے ساتھ بات چیت کے بارے میں بین الاقوامی برادری کے اندر باہمی اتفاق پیدا کرنا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ بند کمرے میں ہونے والے اس اجلاس میں انسانی حقوق بالخصوص خواتین اور لڑکیوں کے حقوق، جامع حکمرانی، انسداد دہشت گردی اور منشیات کی سمگلنگ جیسے اہم امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

اجلاس میں چین، فرانس، جرمنی، انڈیا، انڈونیشیا، ایران، جاپان، قازقستان، کرغزستان، ناروے، پاکستان، قطر، روس، سعودی عرب، تاجکستان، ترکی، ترکمانستان، متحدہ عرب امارات، برطانیہ، امریکہ، ازبکستان، یورپی یونین اور اسلامی تعاون تنظیم شریک ہے جبکہ طالبان انتظامیہ کو دوحہ اجلاس میں مدعو نہیں کیا گیا۔

اس حوالے سے افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے گذشتہ روز کہا تھا کہ کوئی بھی اجلاس افغان حکومت کے نمائندوں کے بغیر غیرموثر ہے۔

دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ سہیل شاہین کا کہنا تھا: ’امارات اسلامیہ، جو مسئلے کا بنیادی فریق ہے، اس کے نمائندوں کے بغیر کوئی بھی اجلاس غیر موثر ہے اور بعض اوقات خلاف منشا بھی ہو سکتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ افغانستان کی امارات اسلامیہ کا قانونی حق ہے کہ اسے ایسے اجلاسوں میں اپنی پوزیشن واضح کرنے کا موقع دیا جائے۔

‘ایسے اجلاس میں لیے جانے والے فیصلے کیسے قابل قبول یا نافذ ہو سکتے ہیں جبکہ ہم اس عمل کا حصہ ہی نہیں ہیں۔‘

بقول سہیل شاہین: ’یہ تفریق اور بلاجواز ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا