وزیر خارجہ کے بیان کو ’تشدد‘ سے جوڑنا ’غیر ذمہ دارانہ‘ ہے: پاکستان

پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں سرحد پار تنقید کے حوالے سے کہا گیا کہ ’انڈیا کا یہ اقدام پاکستانی وزیر خارجہ کی جانب سے مذاکرات کے ذریعے تنازعات کے حل کے کلیدی پیغام سے توجہ ہٹانے کی ایک کوشش ہے۔‘

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری حال ہی میں شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے لیے انڈیا کے شہر گوا گئے تھے (بلاول بھٹو زرداری ٹوئٹر)

پاکستان کے دفتر خارجہ کے مطابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے انڈیا میں بیان کو ’تشدد کے خطرے‘ سے جوڑنا نہ صرف ’شرارت‘ بلکہ انتہائی ’غیر ذمہ دارانہ‘ اقدام ہے۔

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری حال ہی میں شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے لیے انڈیا کے شہر گوا گئے تھے۔ جہاں انہوں نے اپنے خطابات اور بیانات میں انڈیا کے زیر انتظام جموں اور کشمیر کے تنازع کے پرامن حل کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کی اہمیت پر زور دیا تھا۔

اتوار کو دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں سرحد پار تنقید کے حوالے سے کہا گیا کہ ’انڈیا کا یہ اقدام پاکستانی وزیر خارجہ کی جانب سے مذاکرات کے ذریعے تنازعات کے حل کے کلیدی پیغام سے توجہ ہٹانے کی ایک کوشش ہے۔‘

میڈیا کو ایک ویڈیو کلپ کا حوالہ دیتے ہوئے جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کے وزیر خارجہ نے نئی دہلی کے زیر انتظام کشمیر میں جی 20 اجلاس کے انعقاد پر انڈیا کو دھمکی دی ہے، ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ’انڈیا کے اپنے حالیہ دورے کے دوران متعدد بیانات میں وزیر خارجہ نے جموں اور کشمیر کے تنازع کے پرامن حل کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کی اہم اہمیت پر زور دیا۔ واضح طور پر انہوں نے اپنا مقدمہ بین الاقوامی قانون کے مطابق پیش کیا۔‘

ترجمان نے مزید کہا کہ دفتر خارجہ پہلے ہی 11 اپریل  کی اپنی پریس ریلیز میں کشمیرمیں جی 20 ٹورازم ورکنگ گروپ کے اجلاس پر پاکستان کے موقف کو واضح کر چکا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’وزیر خارجہ کے بیانات کو تشدد کے خطرے سے جوڑنا نہ صرف شرارت بلکہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے۔ یہ بات چیت کے ذریعے اور بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق تنازعات کے حل کے لیے وزیر خارجہ کے اہم پیغام سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔‘

ترجمان نے مزید کہا کہ ’حساس بین الریاستی معاملات پر رپورٹنگ کرتے وقت صحافتی اصولوں کا احترام کیا جانا چاہیے۔‘

پانچ مئی کو انڈیا کی ریاست گوا میں ایک پریس کانفرنس کے دوران سری نگر میں جی 20 اجلاس کی میزبانی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ اس سے بھارت کی ’کم ظرفی‘ اور ’دنیا کے سامنے تکبر کا مظاہرہ ہوتا ہے کہ بین الاقوامی قانون، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور دوطرفہ معاہدوں کوئی معنی نہیں رکھتے اور انڈیا کشمیر میں اپنے ایونٹس کا انعقاد کرے گا۔ ‘ انہوں نے کہا کہ ’ظاہر ہے ہم اس کی مذمت کرتے ہیں اور اس وقت ایسا جواب دیا جائے گا جسے یاد رکھا جائے گا۔‘

اس سے قبل وزیر خارجہ نے اپنے دورے سے واپسی پر کہا تھا کہ ایس سی او اجلاس میں انہوں نے تمام اہم نکات پیش کرتے ہوئے انڈیا جا کر پاکستان کا مقدمہ لڑا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا: ’انڈیا میں کشمیر کے حوالے سے یک طرفہ بیانیہ چل رہا تھا، میں نے انڈیا کی سرزمین پر پاکستان کا مقدمہ لڑا جس پر انڈیا کے وزیر خارجہ کو غصہ ہے۔‘

اس کے علاوہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے گوا میں اجلاس کے اختتام پر پریس کانفرنس سے گفتگو میں کہا کہ اگر انڈیا کشمیر سے متعلق اپنا اگست 2019 کا یک طرفہ فیصلہ واپس لے تو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آ سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ انڈیا کے کشمیر پر یک طرفہ فیصلے نے نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں اور پاکستان کے ساتھ دو طرفہ معاہدوں کی خلاف ورزی کی بلکہ بات چیت کے لیے گنجائش کو ختم کر دیا۔

ان کے مطابق اب دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کی ذمہ داری انڈیا پر عائد ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر انڈیا بات چیت کے لیے سازگار ماحول بنائے تو ایک دستاویز بھی بن سکتی ہے جس پر دونوں فریقین دستخط کرسکتے ہیں۔

’تاہم اب ایک بھروسے کی فضا کی کمی ہے جس میں دو طرفہ بات چیت کا اگر آغاز بھی ہوجائے تو یہ ممکن ہے کہ اس کی خلاف ورزی ہوگی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا