مکھڈ کے آثار قدیمہ اور مندر

کسی زمانے میں مکھڈ ایک تجارتی شہر تھا، یہاں کی تجارت پہ ہندوؤں کا اثرورسوخ زیادہ تھا۔ مکھڈ کے بازار میں تقسیم ہند سے قبل ہندو تاجروں کی دکانیں تھیں جن کے دروازے لکڑی کے تھے، ان میں سے کچھ دکانیں اب بھی اسی حالت میں موجود ہیں۔  

اسلام آباد سے 150 کلو میٹر دور بل کھاتے پہاڑوں اور ڈھلوانوں سے گزر کر دریائے سندھ کے کنارے ضلع اٹک کا قدیم قصبہ مکھڈ واقع ہے۔

سی پیک مغربی روٹ پر تراپ انٹرچینج سے 20 کلومیٹر دور دریائے سندھ کے کنارے آباد مکھڈ ایک تاریخی شہر ہے۔

یہاں پہنچ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ  صدیوں پہلے کے کسی شہر میں آ گئے ہوں۔

پرانے زمانے کے پتھروں اور لکڑی سے بنائے گئے مکانات، پتھر سے بنی گلیاں اور ان میں سے گزرتی ٹھنڈی ہوا طمانیت کا احساس دلاتی ہے۔

یہاں پرانے دور کے بنائے گئے مکانات میں سے اکثر شکستہ ہو چکے ہیں مگر کچھ اب بھی اچھی حالت میں موجود ہیں۔  

کسی زمانے میں مکھڈ ایک تجارتی شہر تھا، یہاں کی تجارت پہ ہندوؤں کا اثرورسوخ زیادہ تھا۔ مکھڈ کے بازار میں تقسیم ہند سے قبل ہندو تاجروں کی دکانیں تھیں جن کے دروازے لکڑی کے تھے، ان میں سے کچھ دکانیں اب بھی اسی حالت میں موجود ہیں۔  

یہاں دریائے سندھ کے عین اوپر کنارے پر ایک مندر بھی موجود ہے جو تعمیر کا اعلیٰ شاہکار ہے کسی زمانے میں ہندو یہاں آ کر مذہبی رسومات سر انجام دیتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی کے پروفیسر محمد ساجد نظامی نے بتایا کہ ’مکھڈ کی تاریخ صدیوں پرانی ہے، یہ دریائی بندرگاہ بھی رہا ہے، یہ آخری بندرگاہ تھی، یہاں کالاباغ سے نمک کشتیوں اور بیڑوں کے ذریعے لایا جاتا تھا جو قریبی منڈیوں تک جاتا تھا۔ یہاں سے سکھر تک دریائی راستوں سے تجارت ہوتی تھی۔‘

’یہاں کے مندر میں گردونواح سے بھی ہندو عبادات کے لیے آتے تھے۔ اب بہت ساری تبدیلیاں آ چکی ہیں اور ہم اپنی روایات کو بڑی تیزی سے مٹا رہے ہیں۔ اس میں کسی فرد یا کسی ادارے کا کوئی ایسا کردار نظر نہیں اتا کہ وہ ان تاریخی اثاثوں کو بچا سکے۔‘

’ایک سوال کے جواب میں محمد ساجد نظامی نے بتایا کہ مکھڈ شہر کے باہر 300 سال پہلے بیرونی حملہ آوروں سے بچانے کے لیے فصیلیں بنائی گئی تھیں جن کے تین دروازے بنائے گئے۔ اس علاقے میں مرد و خواتین کے نہانے اور کپڑے دھونے کے لیے دریائی پتن بھی موجود ہیں۔‘

یہاں موجود ہندوؤں کے قدیم مکانات پر چترکاری کا کام اپنے وقت کے ہنرمندوں کا عکاس ہے۔

اگر مکھڈ کے آثار قدیمہ اور یہاں کے بل کھاتے پہاڑوں پر تھوڑی سی بھی توجہ دی جائے تو یہاں سیاحت کا فروغ ممکن ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ