پنجاب حکومت جلاؤ گھیراؤ کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنائے گی

پنجاب حکومت کے مطابق ’اجلاس میں جناح ہاؤس، عسکری و سول تنصیبات میں تھوڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران کی گرفتاری کے بعد 10 مئی 2023 کو لاہور میں زمان پارک کے باہر مشتعل افراد نے ایک گاڑی کو نذر آتش کر دیا (اے ایف پی)

پنجاب حکومت نے پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج کے دوران لاہور میں جناح ہاؤس اور دیگر مقامات پر جلاؤ گیھراؤ کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا اعلان کیا ہے۔

ہفتے کی صبح نگران وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی نے پنجاب سیف سٹی اتھارٹی کے لاہور میں ہیڈ آفس کا دورہ کیا اور امن وامان کی صورتحال پر جائزہ اجلاس کی صدارت بھی کی۔

ترجمان پنجاب حکومت کے مطابق ’اجلاس میں کور کمانڈر ہاؤس (جناح ہاؤس)، عسکری و سول تنصیبات میں تھوڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے افسوسناک واقعات کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

’جے آئی ٹی واقعات کی تحقیقات کر کے جامع رپورٹ حکومت کو پیش کرے گی۔ تمام شرپسندوں کو قانون کی گرفت میں لانے کے لیے کارروائیاں مزید تیز کرنے کا حکم پہلے ہی دے دیا گیا ہے۔‘

وزیر اعلی کی جانب سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ’مختلف مقامات پرتھوڑ پھوڑ والے تمام مقامات کی جیو فینسنگ کرائی جائے گی تاکہ معلوم ہوسکے کہ واقعات میں کیمروں کی نظر سے بچ جانے والے دیگر ملزمان میں کون کون لوگ شامل تھے۔‘

وزیر اعلی نے اعلان کیا کہ ’شرپسندوں کے خلاف تمام مقدمات انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلائے جائیں گے۔ محکمہ پبلک پراسیکیوشن  کو تمام کیسوں کا فوری ٹرائل یقینی بنانے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔ کسی گناہ گار کو چھوڑیں گے نہیں اوربے گناہ کو پکڑیں گے نہیں۔‘

وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی نے کہا کہ ’شواہد اورثبوتوں کے ساتھ ہر شرپسند کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ جناح ہاوس، عسکری، سول و نجی املاک پر حملہ کرنے والے عناصر عبرتناک سزا سے نہیں بچ پائیں گے۔ شرپسندوں کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائی ہے۔ انشااللہ 15 مئی کو تعلیمی ادارے کھول دیے جائیں گے۔‘

وزیر اعلی پنجاب نے ہدایت کی کہ ’صورتحال میں بہتری آرہی ہے، عوام کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے۔ متعلقہ ادارے امن وامان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے بہترین کوآرڈینیشن جاری رکھیں۔ شرپسند عناصر کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کے لیے پوری فورس الرٹ ہے۔‘

انسپکٹرجنرل پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے صوبے میں امن وامان کی صورتحال اور شرپسندوں کے خلاف کارروائیوں کے بارے میں اجلاس کے شرکا کو بریفنگ دی۔

اجلاس میں صوبائی وزیر اطلاعات عامر میر، چیف سیکریٹری، انسپکٹر جنرل پولیس، ایڈیشنل چیف سیکریٹری، ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ، ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ، سی سی پی او لاہور، ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی، سیکریٹری قانون، سیکرٹری پبلک پراسیکیوشن، ایم ڈی پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی، کمشنر لاہور ڈویژن، ڈپٹی کمشنر اور متعلقہ حکام بی اجلاس میں شریک ہوئے۔

تمام ڈویژنل کمشنرز او رآرپی اوز ویڈیولنک کے ذریعے اجلاس میں شریک ہوئے۔

اہم واقعات پر بننے والی جے آئی ٹیز کتنی موثر رہیں؟

پاکستان میں ہر بڑے واقعے کے بعد جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم تشکیل دینا معمول بن چکا ہے۔ ماڈل ٹاون واقعہ ہو، ساہیوال واقعہ ہو، 25 مئی پی ٹی آئی لانگ مارچ کے دوارن پرتشدد کارروائیوں پر بننے والی جے آئی ٹی ہو یا عمران خان کی ریلی پر وزیر آباد حملہ کے بعد بننے والی جے آئی ٹی ہو، لیکن ان تحقیقات کے نتیجے میں جاری ہونے والی رپورٹس پر کبھی فریقین مطمعن دکھائی نہیں دیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج ظفر اللہ خان کے مطابق ’قانون میں جے آئی ٹی بنانے کا اختیار تو موجود ہے جس کا مقصد کسی بھی واقعے کے زیادہ سے زیادہ اور واضع حقائق سامنے لانا ہوتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں جے آئی ٹی بننے کے بعد معاملہ لٹک جاتا ہے اور کئی بار واقعہ مزید پیچیدہ بھی ہو چکا ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’جتنے واقعات پر بھی جے آئی ٹی بنی ان میں رپورٹس تیار کر لی جاتی ہے مگر اس پر بعد میں پھر سوالات اٹھتے ہیں۔ ملک میں قانون اور قانون نافذ کرنے والے ادارے موجود ہیں عدالتوں میں مکمل ڈھانچہ کام کر رہا ہے مگر جب عدالتیں متعلقہ اداروں کی جانب سے کسی واقعے سے متعلق تحقیقات پر مطمعن نہ ہو تو وہ بھی جے آئی ٹی تشکیل دے کر معلومات کو واضع کر سکتی ہیں۔‘

ظفر اللہ خان کے بقول: ’جے آئی ٹی تشکیل دینا یا نہ دینا اہم نہیں ہوتا بلکہ اس کی تشکیل سے واقعے کی چھان بین میں بہتری کی نیت ہونا لازمی ہے۔ کسی بھی تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کے بعد اس کی رپورٹ آنے کے وقت سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ جے آئی ٹی بنانے کا فائدہ ہوا یا محض وقت کا ضیاع مقصد تھا۔ بد قسمتی سے یہاں حکومتیں کسی بھی واقعہ کے بعد جے آئی ٹی بنا کر یا تو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرتی ہیں یا ان کا مقصد واقعے کو دبانا ہوتا ہے۔‘

ان کے خیال میں ’کسی بھی واقعے کی تہہ تک پہچنے کے لیے بنائی جانے والی جے آئی ٹی کی رپورٹس آنے کے بعد فریقین بھی اس پر اعتماد نہیں کرتے۔ لہذا جے آئی ٹی بنانے کا فائدہ اسی وقت ہوتا ہے جب اس میں قابل لوگ شامل کر کے نیک نیتی سے حقائق جلد از جلد سامنے لائیں جائیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان