نیب حراست کے دوران عمران خان سے رابطے میں تھا: بابر اعوان

عرب نیوز سے گفتگو میں جب دوران حراست عمران خان سے ان کے رابطے کے بارے میں سوال کیا گیا تو بابر اعوان نے مختصر توقف کے بعد جواب دیا: ’ہاں، میں اس شہر میں رہتا ہوں، ہمیں رابطہ کرنے کے طریقے آتے ہیں۔‘

عمران خان اور بابر اعوان، اسلام آباد ہائی کورٹ میں (12 مئی 2023، فیس بک بابر اعوان)

قانون دان بابر اعوان نے عمران خان کی حراست کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ہفتے کو کہا کہ نیب حراست کے دوران وہ عمران خان سے رابطے میں تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’جب میں نے ان سے بات کی تو عمران خان نے کہا کہ میں کوئی سہولت نہیں مانگوں گا۔‘

بابر اعوان نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا  کہ عمران خان کو ’اندھیرے میں رکھا گیا تھا۔ اندھیرے کا مطلب ہے کہ (ان کے پاس) کوئی ٹیلی ویژن نہیں تھا۔‘

بابر اعوان کے مطابق ’خان دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے مختلف تھے، جنہوں نے اسی طرح کے حالات میں زندگی کو آرام دہ بنانے کے لیے سہولیات کا مطالبہ کیا۔‘

جب عرب نیوز نے ان سے سوال کیا کہ کیا ان کے بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حراست کے دوران خان سے رابطے میں تھے، تو انہوں نے مختصر توقف کے بعد جواب دیا: ’ہاں، میں اس شہر میں رہتا ہوں، ہمیں رابطہ کرنے کے طریقے آتے ہیں۔‘

سپریم کورٹ نے جمعرات کو عدالت کے احاطے میں عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیا تھا، جب کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے جمعے کو ان کی دو ہفتے کی ضمانت منظور کی تھی۔ ہائی کورٹ نے یہ بھی حکم دیا کہ عمران خان کو کسی بھی صورت میں پیر سے پہلے گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔

قبل ازیں جمعے کو ہائی کورٹ میں صحافیوں کے ساتھ ایک غیر رسمی گفتگو میں عمران خان نے کہا کہ نیب حکام نے انہیں اپنی اہلیہ سے بات کرنے کے لیے لینڈ لائن استعمال کرنے کی اجازت دی تھی۔

یہ سوال مسرت جمشید چیمہ کے ساتھ عمران خان کی مبینہ فون کال کی آڈیو لیک کے بعد اٹھایا گیا تھا، جو انہوں نے مبینہ طور پر اپنی پارٹی کو سپریم کورٹ میں اپنی گرفتاری کو چیلنج کرنے کی ہدایات جاری کرنے کے لیے کی تھی۔

بابر اعوان نے دوران گفتگو مزید بتایا کہ عمران خان نے حراست میں رہتے ہوئے ملک کی طاقتور سکیورٹی سٹیبلشمنٹ میں کسی سے ملاقات نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ ’تفتیش خصوصی طور پر نیب کی طرف سے کی گئی تھی۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ پوچھنے کے لیے کچھ نہیں تھا، عمران خان نے جتنے بھی ادارے بنائے تھے، بشمول شوکت خانم ہسپتال اور القادر یونیورسٹی، وہ ان کے ذاتی منصوبے نہیں تھے۔

بابر اعوان نے دوران گفتگو اپنے موقف کا اعادہ کیا کہ مذکورہ تمام اداروں کے اپنے آزاد بورڈ تھے، اورعمران خان کسی ادارے پر اثر انداز ہو سکتے ہیں نہ ہی وہاں کوئی تعیناتی کر سکتے ہیں نیز وہ ان کی جمع شدہ رقم کو بھی استعمال نہیں کر سکتے۔

’ان کی جیب میں ایک پیسہ بھی نہیں جاتا۔‘

عمران خان نے جنوری میں ایک نجی ہاؤسنگ پروجیکٹ میں تقریباً تین ملین ڈالر شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کے فنڈز سے سرمایہ کاری کا اعتراف کیا، اگرچہ انہوں نے کہا کہ یہ رقم بعد میں واپس کر دی گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا پی ٹی آئی کو ان کے رہنما کی گرفتاری کے بعد ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے بعد کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے، بابر اعوان نے اس خیال کو مسترد کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ حکومت کا کام نہیں ہے۔ یہ سپریم کورٹ کا کام ہے اور یہ آئین میں لکھا ہوا ہے۔‘

بابر اعوان نے کہا کہ ’سپریم کورٹ اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے اور انہوں نے پہلے ہی کہا تھا کہ وہ ’عمران خان کو مرکزی سیاست میں دیکھنا چاہتے ہیں۔‘

جب بابر اعوان سے سوال کیا گیا کہ اگر سابق وزیر اعظم عمران خان کو بدعنوانی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے طلب کیا جائے تو کیا وہ حکام کے ساتھ تعاون کریں گے؟ تو انہوں نے کہا کہ ’اب تو انہیں میرے موکل کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔‘

’وہ کہتے ہیں کہ وہ (لوگوں کو) کنٹرول نہیں کر سکتے، انہیں چاہیے کہ عمران خان کو لوگوں پر قابو پانے کے قابل بنائیں۔ مزید کیس نہ بنائیں۔ پہلے ہی کافی ہیں۔‘

بابر اعوان سے جب موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کی پارٹی حکمت عملی کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ پل ابھی پار کرنا باقی ہے۔‘

رواں ہفتے عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پرتشدد مظاہرے ہوئے جن کے دوران ایک اعلیٰ فوجی جنرل کی سرکاری رہائش گاہ سمیت دیگر سرکاری عمارتوں اور عوامی املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان