دنیا میں 2017 کے بعد گذشتہ برس سب سے زیادہ سزائے موت دی گئیں: ایمنسٹی

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق یہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے، جس میں صرف ان جرائم کے لیے سزائے موت کی اجازت دی گئی ہے، جن میں جان بوجھ کر کسی کو قتل کیا جائے۔

 17 دسمبر 2022 کی اس تصویر میں امریکہ کے شہر نیویارک میں اقوام متحدہ میں ایرانی مستقل مشن کے سامنے لوگ ایران میں سزائے موت اور نظربندیوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں (تصویر: اے ایف پی)

عالمی حقوق پر نظر رکھنے والی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی منگل کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2022 میں دنیا بھر میں دی گئی موت کی سزاؤں کی تعداد 883 تک پہنچ گئی، جو کہ 2017 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ وہ 20 ممالک  جو سزائے موت کے حوالے سے مشہور ہیں، وہاں پچھلے 12 ماہ کے مقابلے میں سزائے موت کی تعداد میں 53 فیصد اضافہ ہوا۔

اس میں چین میں خفیہ طور پر موت کے گھاٹ اتارے جانے والے ’ہزاروں‘ قیدیوں کو شامل نہیں کیا گیا، لیکن سعودی عرب میں ’حیران کن‘ طور پر ایک ہی دن میں سزائے موت پانے والے 81 افراد کو شمار کیا گیا ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ چین اس سنگین درجہ بندی میں ایران (جہاں 576 موت کی سزائیں دی گئیں)، سعودی عرب (جہاں 196 موت کی سزائیں دی گئیں اور جو 30 سالوں میں سب سے زیادہ تعداد ہے)، مصر (جہاں 24 موت کی سزائیں دی گئیں) اور امریکہ (جہاں 18 موت کی سزائیں دی گئیں) سے آگے ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا کہ شمالی کوریا اور ویتنام میں بھی بڑے پیمانے پر سزائے موت دی گئی، لیکن چین کی طرح وہاں بھی اعداد و شمار ’خفیہ‘ ہیں۔

اس میں کہا گیا ہے کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے کچھ ممالک میں سرکاری سرپرستی میں ’سلسلہ وار قتل‘ کے واقعات دیکھنے میں آئے اور اختلاف رائے کے خلاف سرکاری کریک ڈاؤن سزائے موت میں اضافے کا ایک اہم عنصر تھا۔

تمام رپورٹ کی گئی موت کی سزاؤں میں سے تقریباً 40 فیصد منشیات سے متعلق جرائم کے لیے دی گئیں، جن میں سنگاپور میں 11 موت کی سزائیں شامل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق یہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے، جس میں صرف ان جرائم کے لیے سزائے موت کی اجازت دی گئی ہے، جن میں جان بوجھ کر کسی کو قتل کیا جائے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سکریٹری جنرل ایگنیس کالمارڈ نے کہا: ’اہم بات یہ ہے کہ زیادہ تر وہ لوگ اس سخت سزا سے متاثر ہوتے ہیں، جو پسماندہ پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’یہی وقت ہے کہ حکومتیں اور اقوام متحدہ انسانی حقوق کی ان کھلی خلاف ورزیوں کے ذمہ داروں پر دباؤ بڑھائیں اور بین الاقوامی تحفظات کو یقینی بنائیں۔‘

تاہم، ایمنسٹی کے مطابق گذشتہ برس چھ ممالک میں سزائے موت کو جزوی طور پر یا مکمل طور پر ختم بھی کیا گیا، جو اس کی نظر میں ’امید کی ایک کرن‘ ہے۔

وہ ممالک وسطی افریقی جمہوریہ، ایکواٹوریل گنی، قازقستان، پاپوا نیو گنی، سیرا لیون اور زیمبیا تھے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سکریٹری جنرل ایگنیس کالمارڈ نے کہا: ’ایران، چین، شمالی کوریا اور ویتنام جیسے ممالک کے ظالمانہ اقدامات اب اقلیت میں ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’ان ممالک کو فوری طور پر وقت کے ساتھ چل کر انسانی حقوق کا تحفظ کرنا چاہیے اور لوگوں کو سزائے موت دینے کی بجائے انصاف پر عمل درآمد کرنا چاہیے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا