ہندو انتہا پسندوں کو گیتوں میں لفظ ’اللّٰہ‘ کے استعمال سے کیا مسئلہ؟

بی جے پی کے فدائین کیوں بھول جاتے ہیں کہ انڈیا میں مسلم اداکاروں نے تو اپنے نام تک ہندو رکھ لیے تھے اور انہیں اس سے کوئی مسئلہ نہ تھا۔

شاہ رخ خان کی فلم ’کبھی خوشی کبھی غم‘ کے ایک گانے کا منظر (آئی ایم ڈی بی/ دھرما پروڈکشن)

آپ کو شاہ رخ خان کی اس فلم کا نام یاد ہے جس میں ایک گانا تھا ’یہ لڑکی ہائے اللّہ‘ یا رنبیر کپور کی وہ فلم جس میں ایک گیت کے بول تھے ’سبحان اللّٰہ، جو ہو رہا ہے، پہلی دفعہ ہے واللّٰہ۔‘

یہ کہنے سے پہلے کہ مسلمانوں نے بالی وڈ کو ہائی جیک کر رکھا ہے، ہندو انتہا پسندوں کو انڈین کلچر کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

گذشتہ ماہ 18 اپریل کو ورلڈ ہیریٹیج ڈے کی مناسبت سے اتر پردیش کے ہاتھرس ضلعے میں ایک جگہ علامہ اقبال کی مشہور نظم ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘ پڑھی گئی۔

اس کی ویڈیو وائرل ہوتے ہی سکول ٹیچر کی شامت آ گئی۔ نہ صرف ان کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی بلکہ انہیں معطل بھی کر دیا گیا۔ ہندو انتہا پسندوں کو اصل مسئلہ ان مصرعوں سے ہے:

میرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو

نیک جو راہ ہو اس راہ پہ چلانا مجھ کو

انہیں اعتراض ہے کہ اللہ سے مدد کیوں مانگی جا رہی ہے اور یہ لفظ کیوں استعمال ہو رہا ہے۔

اس سے پہلے بھی کئی بار سخت گیر ہندو گروہ بچوں کے لیے علامہ اقبال کی اس دعائیہ نظم پر اعتراضات کر چکے ہیں۔

گذشتہ چھ ماہ کے دوران اس طرح کے تین واقعات میڈیا پر آ چکے ہیں۔

اس جرم کی پاداش میں گذشتہ برس کے آخر میں ایک استاد کو جیل جانا پڑا تھا حالانکہ ہندوستان کے بہت سے خاص طور پر مسلم اکثریتی علاقوں میں یہ نظم سکول کی سطح پر تمام بچے اسمبلی میں پڑھا کرتے تھے۔

تقریباً پون صدی سے چلی آتی ایک بےضرر روایت کو ایسی بھونڈی وجوہات کی بنا پر نشانہ بنانا تنگ نظری کے سوا کیا ہے۔

یہ سن کر عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ بی جے پی سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند گروہوں کے مذہبی جذبات کو اللہ کے لفظ سے ٹھیس پہنچتی ہے۔

اوپر ہم نے جن دو گیتوں کا ذکر کیا ان میں سے پہلا فلم ’کبھی خوشی کبھی غم‘ سے اور دوسرا ’یہ جوانی ہے دیوانی‘ سے ہے۔

’یہ لڑکی ہائے اللہ‘ لکھنے والے شاعر سمیر اور موسیقار جتن للت ہیں۔

فلم میں شاہ رخ، راہل اور کاجول انجلی بنی ہیں یعنی سب کے سب ہندو۔

یہی معاملہ ’سبحان اللہ‘ والے گیت کا ہے جہاں مسلمان نہیں بلکہ ہندو کریکٹر سکرین پر یہ گیت گا رہا ہے۔

ایک ہندو کریکٹر کے منہ سے اللہ کا لفظ سن کر بالکل بھی اجنبی یا مس فٹ نہیں لگتا کیوںکہ انڈیا میں خاص طور پر مسلم اکثریتی علاقوں میں یہ روزمرہ زبان کا حصہ ہے۔ پھر بالی وڈ میں اس تفریق کا نام و نشان تک نہیں۔

1965 کی کلاسک فلم ’گائیڈ‘ فلم کا شاہکار گیت ’اللہ میگھ دے‘ کون بھول سکتا ہے؟ یہ جس کردار کے ساتھ پس پردہ بجتا ہے وہ نہ صرف ہندو بلکہ ہندو جوگی ہے۔

یہ گانا بنیادی طور پر بنگلہ زبان میں فوک گلوکار عباس الدین احمد نے گایا تھا، جس کے شاعر جلال الدین تھے۔

مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ اوریجنل گیت کربلا کی جنگ کے دوران حسین ابن علی کے پیروکاروں کی شدید پیاس کا بیان ہے۔

وہ اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ زمین کا پانی تو ہم پہ بند ہو چکا اب تو آسمان سے بادل برسا اور ہماری پیاس بجھا۔

جب ایس ڈی برمن نے اس سے متاثر ہو کر گیت تیار کیا تو شیلندر نے مکھڑا ویسے ہی رکھا جیسے بنگالی میں تھا۔

1977 میں گلزار نے اسی مکھڑے کو فلم ’پلکوں کی چھاؤں‘ میں استعمال کیا جہاں لوگ دیوتاؤں سے بارش کی دعا کرتے ہیں۔

یہ ہے وہ ثقافتی تنوع جہاں ایک زبان سے دوسری زبان اور ایک مذہب سے دوسرے مذہب میں اترتے ہوئے کوئی لفظ رکاوٹ نہیں بنتا۔

یہ ہندوستان ہے جہاں رومانوی گیت ’ابتدائے عشق میں ہم ساری رات جاگے، اللہ جانے کیا ہو گا آگے‘ لکھتے ہوئے حسرت جے پوری کو یہ نہیں سوچنا پڑتا کہ فلم کے مرکزی کردار مسلم ہیں یا غیر مسلم۔

اسی طرح انل بسواس کا گیت ’اللہ تیری خیر کرے، داتا تیری خیر کرے‘ کون بھول سکتا ہے۔

اگر یہ ہندو انتہا پسند 1960 کی دہائی میں اتنے بااثر ہوتے جتنے آج ہیں تو سوچیے جے دیو اور ساحر لدھیانوی کے اس بھجن پر کتنا شور مچاتے جس کے بول تھے ’اللہ تیرو نام، ایشور تیرو نام۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک بھجن میں اللہ کا لفظ استعمال ہو رہا ہے اور کسی ہندو کے جذبات کو صدمہ نہیں پہنچ رہا۔ لتا منگیشکر نے جس انداز میں اسے ادا کیا کوئی مسلمان کر سکے گا؟

خیر ہمیں ماضی میں اتنی دور جانے کی ضرورت نہیں۔ آج بھی ایسے لاجواب گیت تیار ہو رہے ہیں، جن میں مسلم ہندو کلچر اور رواداری کا خوبصورت امتزاج ہے۔

ایک جھلک فلم ’راک سٹار‘ کے گیت ’کن فیکون‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ راک سٹار بننے کا خواہش مند جورڈن ایک غیر مسلم نوجوان ہے جسے گھر بدر کر دیا گیا ہے۔

وہ نظام الدین اولیا کی درگاہ پہنچتا ہے۔ یہاں خواجہ نظام الدین سے مدد مانگتا اور انسپائریشن لیتا ہے جس کا نقطہ عروج مذکورہ قوالی ہے۔

کن فیکون کے علاوہ قوالی میں تین مرتبہ ’صدق اللہ العظیم‘ کہا جاتا ہے۔

ہندو انتہا پسند نہ صرف ایسے الفاظ اور مسلم شناخت پر مقدمات درج کروا رہے ہیں بلکہ انہیں رنگوں کے استعمال میں بھی مذہب اور مذہبی حساسیت نظر آ رہی ہے۔

پٹھان فلم کے گیت ’بےشرم رنگ‘ میں زعفرانی رنگ پہ انہیں تکلیف تھی۔ یہاں تک کہ مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نروتم مشرا نے بھی اس پر برہمی کا اظہار کیا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے فدائین کیوں بھول جاتے ہیں کہ مسلم اداکاروں نے تو اپنے نام تک ہندو رکھ لیے تھے اور انہیں اس سے کوئی مسئلہ نہ تھا۔

دلیپ کمار سے مدھوبالا اور میناکماری سے نمی، شیاما اور تبو جیسے کتنے ہی نام پیش کیے جا سکتے ہیں۔

یہی نہیں بلکہ پاکستان میں کام کرنے والے کئی مسلمان اداکاروں نے ہندووانہ نام رکھے مگر ان سے کسی کو مسئلہ نہ ہوا۔ سنتوش کمار، رتن کمار اور درپن اس کی چند مثالیں ہیں۔

اس کے علاوہ جگجیت سنگھ سمیت کتنے ہی گلوکاروں نے بچوں کی دعا گائی۔ کتنے ہی مسلم شاعروں نے ایک سے بڑھ کر ایک بھجن لکھے۔

مودی حکومت میں شاید ہی کوئی شعبہ ہندو انتہا پرستی سے محفوظ رہا ہو۔ ایسے میں ایک طرف بالی وڈ تیزی سے ہندوتوا کی پروپیگنڈا مشین بنتا جا رہا ہے تو دوسری طرف ایسی ہر شناخت کو دبایا جا رہا ہے جس کا تعلق مسلمانوں سے ہو۔ اب اللہ کا لفظ انتہا پسندوں کی زد پہ ہے۔

 

یہ بلاگ لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم