روس کا یوکرین سے ہونے والے ’سنگین‘ حملے کو پسپا کرنے کا دعویٰ

روس کا کہنا ہے کہ 24 گھنٹے تک جاری رہنے والی لڑائی میں 70 سے زیادہ حملہ آوروں کو مار دیا گیا، تاہم یوکرین اور ماسکو کے متضاد بیانات کے بعد یہ یقین سے کہنا کہ حملے کے پیچھے کون تھا یا اس کے مقاصد کا پتہ لگانا بظاہر ناممکن ہے۔

روسی فوج نے منگل کو کہا ہے کہ اس نے گذشتہ برس فروری کے بعد سے یوکرین کے سب سے سنگین حملے کو پسپا کر دیا۔

ساتھ ہی روس کا دعویٰ ہے کہ 24 گھنٹے تک جاری رہنے والی لڑائی میں 70 سے زیادہ حملہ آوروں کو مار دیا گیا۔

ماسکو نے پیر کو شروع ہونے والے ان حملوں کا الزام یوکرین کے فوجی تخریب کاروں پر لگایا۔ دوسری جانب یوکرین نے اسے روسی مخالفین کی طرف سے کریملن کے خلاف بغاوت کے طور پر پیش کیا۔

روس اور یوکرین کے متضاد بیانات کے بعد یہ یقین سے کہنا کہ حملے کے پیچھے کون تھا یا اس کے مقاصد کا پتہ لگانا بظاہر ناممکن ہے۔

یہ لڑائی، جو یوکرین کے شہر خارکیو کے شمال میں جنوب مغربی روس کے علاقے بیلگوروڈ میں ہوئی، اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کس طرح روس خود بھی حملے کے خطرے سے دوچار ہے، حتیٰ کہ روس کے زیر قبضہ یوکرینی علاقوں میں بھی۔

یہ خطہ روس کا ایک فوجی مرکز ہے، جہاں ایندھن اور گولہ بارود کے ڈپو ہیں اور روسی صدر ولادی میر پوتن کے حکم نامے کے مطابق یہاں سرگرمیاں بڑھائی گئی تھیں تاکہ یوکرین پر حملوں کے لیے تیاریوں میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ دفاع کو بہتر بنایا جائے۔

کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے یہ بتانے سے انکار کر دیا کہ حملے میں کتنے حملہ آور ملوث تھے یا حملہ آوروں کو مارنے کی کوششوں میں اتنا وقت کیوں لگا۔

جنوبی اور مشرقی یوکرین کے ساتھ منسلک روسی سرحدی قصبے اور گاؤں اس جنگ کے شروع ہونے کے بعد باقاعدگی سے گولہ باری اور ڈرون حملوں کی زد میں آتے رہتے ہیں، لیکن اس ہفتے ہونے والا حملہ حالیہ مہینوں میں دوسرا حملہ ہے، جس میں زمینی افواج بھی ملوث رہیں۔

اسی طرح سرحد پار سے اس سے قبل ہونے والے حملوں اور حالیہ حملے میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ روس نے اسے پسپا کرنے کی کوشش پہلی بار دو روز تک جاری رہی۔

روسی وزارت دفاع کے ترجمان ایگور کوناشینکوف نے دعویٰ کیا کہ مقامی فوجیوں، فضائی حملوں اور توپ خانے  کی مدد سے حملہ آوروں کو شکست دی گئی۔

انہوں نے کسی قسم کے شواہد فراہم کیے بغیر کہا: ’قوم پرستوں کی باقیات کو یوکرین کی سرزمین پر واپس لے جایا گیا، جہاں وہ مکمل طور پر ختم ہونے تک آگ کا نشانہ بنتے رہے۔‘

تاہم ترجمان نے روس کی طرف کسی جانی نقصان کا ذکر نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ روسی افواج نے حملہ آوروں کے زیر استعمال چار بکتر بند گاڑیاں اور پانچ پک اپ ٹرکوں کو تباہ کر دیا۔

مقامی حکام نے الزام لگایا کہ حملہ آوروں نے ڈرون اور توپ خانے کا بھی استعمال کیا۔

بیلگوروڈ خطے کے گورنر ویاچسلاو گلاڈکوف نے کہا کہ سرحد سے تقریباً پانچ کلومیٹرکے فاصلے پر واقع قصبے گریوورون کے آس پاس کے دیہی علاقوں کو حملے کا نشانہ بنایا گیا، جس میں 12 شہری زخمی ہوئے اور ایک معمر خاتون کی موت انخلا کے دوران ہوئی۔

روسی نیوز پورٹل ’آر بی کے‘نے علاقائی وزارت داخلہ اور علاقائی پولیس کے نامعلوم ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ گریوورن پر شدید گولہ باری کی گئی جو پیر کی صبح تقریباً پانچ گھنٹے جاری رہی۔

آر بی کے نے اسی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کے بعد ٹینکوں نے گریوورن کی سرحدی چوکی پر فائرنگ کی جبکہ ملحقہ گاؤں کوزینکا بھی مارٹر اور راکٹوں کی زد میں آیا۔ گورنر ویاچسلاو گلاڈکوف نے بعدازاں بتایا کہ ایک مقامی رہائشی اس حملے میں چل بسا۔

آر بی کے نے کہا کہ حملہ آور فورس 10 بکتر بند گاڑیوں اور غیر متعینہ تعداد میں فوجیوں پر مشتمل تھی۔

منگل کی صبح علاقائی گورنر نے نقل مکانی کرنے والے رہائشیوں سے کہا کہ جب تک انہیں سرکاری ہدایات موصول نہ ہو جائیں تب تک وہ گھر واپس نہ جائیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’انسداد دہشت گردی آپریشن‘ منگل کی شام تک مکمل ہو گیا تھا۔

گلاڈکوف نے یہ بھی کہا کہ منگل کو یوکرین کی سرزمین سے بوریسوکا کا علاقہ، جو گریوورون کے شمال مشرق میں تقریباً 20 کلومیٹر دور ہے، پر حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

علاقائی گورنر نے منگل کو رات گئے ایک ویڈیو پیغام میں شکایت کی کہ وفاقی حکام کے پچھلے سال کے دعوے کہ ’سب کچھ قابو میں ہے‘ اس حملے اور اس سے پہلے کے حملوں کی روشنی میں درست نہیں۔ انہوں نے کریملن سے دفاع کو دوبارہ مضبوط کرنے کی اپیل کی۔

جنگ شروع ہونے کے بعد سے ڈرون، دھماکوں اور میزائلوں کی مدد سے ایندھن اور گولہ بارود کے ڈپو، ریلوے، سڑکوں، پلوں اور ہوائی اڈوں کو روسی سرزمین او روس کے زیر قبضہ یوکرینی علاقوں میں نشانہ بنایا گیا ہے۔

ان علاقوں میں روس کے مقرر کردہ سرکاری اہلکاروں اور دیگر عوامی شخصیات کے قتل بھی ہوئے۔

حملہ کریملن مخالفین نے کہا: یوکرین

دوسری جانب یوکرین نے کہا ہے کہ روسی رضاکار کارپس اور فریڈم آف رشیا لیجن جیسے مضحکہ خیز گروپوں سے تعلق رکھنے والے روسی شہری اس حملے کے پیچھے تھے۔

یوکرین کی نائب وزیر دفاع ہنا ملیار نے کہا کہ حملہ آور پوتن کی پالیسیوں سے ناخوش اور روس مخالف تھے۔ ’ہم سمجھتے ہیں کہ یہ روسی محب وطن ہیں، جنہوں نے درحقیقت پوتن حکومت کے خلاف بغاوت کی تھی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فریڈم آف رشیا لیجن نے ٹیلی گرام پر کہا کہ اس کا مقصد خطے کو ’آزاد‘ کرانا ہے۔

روسی رضاکار کارپس نے ٹیلی گرام پر اشارہ دیا کہ حملہ ختم ہو گیا اور یہ کہ ’ایک دن، ہم یہاں رہنے کے لیے آئیں گے۔‘

یہ پوسٹ تقریباً اسی وقت ڈالی گئی جب روسی وزارت دفاع نے حملے کو ناکام بنانے کا دعویٰ کیا تھا۔

برطانیہ کی وزارت دفاع نے کہا کہ اس بات کا ’بہت زیادہ امکان‘ ہے کہ روسی سکیورٹی فورسز بیلگوروڈ میں کم از کم تین مقامات پر فریقین سے لڑ رہی ہیں۔

’روس کو اپنے سرحدی علاقوں میں ایک بڑھتے ہوئے سنگین کثیر الجہتی سکیورٹی خطرے کا سامنا ہے، جس میں جنگی طیاروں کے نقصانات، ریلوے لائنوں پر دیسی ساختہ دھماکہ خیز آلات کے حملے اور اب براہ راست کارروائیاں شامل ہے۔‘

روس کی اعلیٰ ترین قانون نافذ کرنے والی ایجنسی ’رشین انویسٹی گیٹو کمیٹی‘ نے مبینہ دہشت گردی اور حملے میں قتل کی کوشش کی تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔

بیلگوروڈ کے حکام نے اس سال کے شروع میں کہا تھا کہ انہوں نے علاقے کی حفاظت کے لیے تقریباً 10 ارب روبل خرچ کیے ہیں۔

روسی رضاکار کارپس نے مارچ کے شروع میں سرحد کی خلاف ورزی کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ یہ شیڈو گروپ خود کو ’یوکرین کی طرف سے لڑنے والی رضاکارانہ تشکیل‘ کے طور پر بیان کرتا ہے۔ یہ واضح نہیں کہ آیا اس کا یا فریڈم آف روس لیجن کا یوکرین کی فوج کے ساتھ کوئی تعلق ہے۔

ادھر یوکرین کی نائب وزیر دفاع ملیار کے مطابق یوکرین کی افواج نے مشرقی یوکرین کے شہر باخموت کے کنارے پر روسی افواج کے خلاف معمولی پیش رفت کی، جس پر ماسکو نے قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

انہوں نے منگل کو کہا کہ یوکرین کے فوجی اب بھی شہر کے جنوب مغربی مضافات پر قابض ہیں اور مضافاتی علاقوں میں روس کے اطراف میں لڑائی جاری ہے۔

دوسری جانب یوکرین کے فوجی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ باخموت میں لڑائی ختم نہیں ہوئی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا