اعلیٰ اعزازات کے حامل آسٹریلوی فوجی جنگی جرائم کے مرتکب: عدالت

آسٹریلیا میں وفاقی عدالت کے جج نے قرار دیا کہ ’ان حقائق کی روشنی میں، جن تک میں پہنچا، ہتک عزت کی ہر کارروائی ختم کر دی جانی چاہیے۔‘ آسٹریلیا میں پہلی بار سول مقدمے میں کسی عدالت نے افواج پر جنگی جرائم کے الزامات کا جائزہ لیا۔

بین رابرٹس سمتھ نو جون 2021 کو سڈنی کی فیڈرل کورٹ میں (اے پی)

آسٹریلیا میں ایک عدالت نے فیصلہ سنایا ہے کہ افغانستان میں ایس اے ایس (سپیشل ایئر سروس) میں فرائض انجام دیتے ہوئے ’ملک کے سب سے زیادہ اعزازات رکھنے والے زندہ فوجی نے جنگی جرائم کیے جن میں لوگوں کو قتل کرنا بھی شامل ہے۔‘

وفاقی عدالت کے جج اینتھنی بسانکو نے وکٹوریا کراس پانے والے فوجی بین رابرٹس سمتھ کی طرف سے دائر کیے گئے ہتک عزت کے تاریخی مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف قتل کے چھ الزامات میں سے چار ’بڑی حد تک درست‘ ہیں۔ بین رابرسٹس سمتھ نے تین اخبارات کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا تھا۔ ان اخبارات میں شائع ہونے والے مضامین الزام لگایا گیا کہ مذکورہ فوجی نے نامعلوم قیدیوں کو قتل کیا۔ اس طرح وہ مقدمہ اس سنسنی خیز فیصلے پر ختم ہو گیا جس نے ایلیٹ ایس اے ایس کی کارروائیوں کو خفیہ رکھنے کے لیے پڑا پردہ اٹھا دیا۔

جج بسانکو نے کہا کہ ’ان نتائج کی روشنی میں جن پر میں پہنچا (ہتک عزت) کی ہر کارروائی ختم کر دی جانی چاہیے۔‘

جج بسانکو کا کہنا تھا کہ قتل کے جو الزامات کافی حد تک درست ثابت ہوئے ان میں یہ شامل ہیں۔

  • ہتھکڑی لگے کاشت کار کا قتل جنہیں گولی مار کر قتل کرنے کا حکم دینے سے پہلے رابرٹس سمتھ نے انہیں لات مار کر پہاڑی سے نیچے پھینک دیا۔
  • پکڑ لیے جانے والے ایک جنگجو جن کی کمر میں کم از کم 10  گولیاں ماری گئیں۔ اس سے پہلے ان کی مصنوعی ٹانگ کو نشانی کے طور پر اتار لیا گیا اور بعد میں فوجیوں نے اسے پینے کے برتن کے طور پر استعمال کیا۔
  • دو افراد کا قتل جن کا رابرٹس سمتھ نے حکم دیا یا اس پر اتفاق کیا تاکہ نئے فوجیوں کو ’خون ‘کے تجربے سے گزارا جا سکے۔
  •  پہلی بار سول مقدمے میں کسی عدالت نے آسٹریلوی افواج پر جنگی جرائم کے الزامات کا جائزہ لیا۔ آسٹریلوی سول عدالتوں کو فوجداری عدالتوں کے مقابلے میں الزامات ثابت کرنے کے لیے کم حد کی ضرورت ہوتی ہے۔

44 سالہ رابرٹس سمتھ نے اپنے خلاف تمام الزامات کی تردید کی ہے۔ ان پر کسی بھی جرم کا الزام نہیں لگایا گیا ہے۔ وہ فیصلہ سننے کے لیے عدالت میں موجود نہیں تھے۔

رابرٹس سمتھ کو 2006 سے 2012 تک افغانستان کے چھ دوروں کے دوران ان کے کارناموں کی بدولت قومی ہیرو کے طور پر دیکھا گیا۔ انہوں نے فوج چھوڑنے کے بعد مقبول عوامی مقرر میڈیا ایگزیکٹیو کے طور پر کام کا آغاز کیا۔ ان کی تصویر آسٹریلیا میں جنگی یادگار میں موجود ہے۔

انہوں نے 2010 میں قندھار کے علاقے تزک میں لڑائی  کے دوران اس مقام پر حملہ کیا جہاں سے مشین گنوں سے فائرنگ کی جا رہی تھی۔ اس کارنامے پر انہیں وکٹوریہ کراس سے نوازا گیا۔ انہیں مشین چلانے والے دو افراد اور ایک عسکریت پسند کو مارنے کا کریڈٹ دیا گیا جو راکٹ گرنیڈ چلانے والے تھے۔ اس لڑائی کی وجہ سے ان پر جنگی جرائم کا کوئی الزام نہیں ہے۔

2018  سے اخبار سڈنی مورننگ ہیرلڈ، دی ایج اور دا کینبرا ٹائمز کے مضامین میں مذکورہ الزام لگایا جا رہا تھا اور سمتھ کے بعض اقدامات قابل قبول فوجی کارروائیوں کی حدود سے باہر نکل گئے۔

سمتھ نے ان اخبارات پر مقدمہ دائر کر دیا کہ انہیں کسی ایسے شخص کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس نے ’فوجی مصروفیت کے اخلاقی اور قانونی اصولوں کو توڑا۔‘

انہوں نے ان رپورٹوں کو جھوٹا اور ناکام فوجیوں کے دعووں پر مبنی قرار دیا جو ان کی کامیابیوں سے حسد کرتے تھے۔ انہوں نے اخبارات پر ہرجانے کا دعویٰ کیا جس کی رقم کے بارے میں نہیں بتایا گیا۔

اخبارات نے اپنے دعوؤں کو درست ثابت کرتے ہوئے اپنی رپورٹوں کا دفاع کرنے کی کوشش کی اور دوسرے فوجیوں اور سابق فوجیوں کو بطور گواہ عدالت میں پیش کیا جنہوں نے ان دعووں کی تصدیق کی۔

اگرچہ یہ قانونی حکمت عملی بڑی حد تک کامیاب رہی تاہم جج بیسانکو کے روبرو اخبارات قتل کے دو دیگر الزامات کو ثابت نہیں کر سکے اور نہ ہی یہ الزام  کہ  رابرٹس سمتھ نے ایک خاتون پر حملہ کیا جن کے ساتھ ان کا معاشقہ تھا۔ تاہم جج نے بتایا کہ غیر ثابت شدہ الزامات سے سابق فوجی کی ساکھ کو مزید نقصان نہیں پہنچے گا۔

اندازے کے مطابق اس مقدمے کی قانونی فیس کی مد میں ڈھائی کروڑ آسٹریلوی ڈالرز (ایک کروڑ 30 لاکھ پاؤنڈ) سے زیادہ لاگت آئی ہے۔ مقدمہ کا ریکارڈ 110  دن کے شواہد، 41 گواہوں اور ٹرانسکرپٹ کے 6000 سے زائد صفحات پر مشتمل تھا۔

رابرسٹس سمتھ کے وکیل آرتھر موسیس نے صحافیوں کو بتایا کہ ’ہم اس طویل فیصلے کا جائزہ لیں جو معزز جج نے دیا اور اپیل سے معاملات پر غور کریں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نائن انٹرٹینمنٹ کمپنی لمیٹیڈ میں اخبار کے مینیجنگ ایڈیٹر جیمز چیسل نے کہا کہ ’اس سے ہمارے نیوز رومز میں موجود بہت سے لوگوں کی تصدیق ہوتی ہے جنہوں نے درحقیقت عوامی مفاد کی اس اہم صحافت کی حمایت کی۔ ‘

 چیسل نے عدالت کے باہر بات چیت میں کہا کہ ’اس سے ایس اے ایس کے ان بہادر فوجیوں کی تصدیق ہوتی ہے جنہوں نے امتیاز کے ساتھ ملک کی خدمت کی اور اس کے بعد ان واقعات کے بارے میں سچ بیان کرنے کا حوصلہ ہوا جو پیش آئے۔‘

آسٹریلیا کی سپیشل ایئر سروس ایسوسی ایشن کے سربراہ مارٹن ہملٹن سمتھ نے ہتک عزت کے اس مقدمے کو ایلیٹ رجمنٹ کے لیے ’بہت مایوس کن دن‘ قرار دیا۔

آسٹریلوی ڈیفنس فورس کے انسپکٹر جنرل کی 2020 کی رپورٹ میں افغانستان میں آسٹریلوی سپیشل فورسز کے دستوں کے طرز عمل سے متعلق ’معتبر ‘معلومات ملی ہیں کہ آسٹریلوی فوجیوں نے 39 افغان شہریوں اور قیدیوں کی غیر قانونی طور جان لی۔

ہملٹن سمتھ نے کہا کہ اگر سابق فوجیوں پر جنگی جرائم کا مقدمہ چلنا ہے تو ان پر بلا تاخیر الزام عائد کیا جانا چاہیے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آپ اس کی اصل حقیقت تک صرف اس صورت میں ہی پہنچ سکتے ہیں کہ مقدمہ فوجداری عدالت میں لے جایا جائے جہاں کہانی کے دونوں رخ بیان کیے جا سکیں اور حقائق کو معقول شک و شبے سے بالا تر ہو کر ثابت کیا جا سکے۔‘

اس رپورٹ کی تیاری میں روئٹرز اور ایسوسی ایٹڈ پریس سے مدد لی گئی ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا