انڈین پارلیمنٹ میں ’اکھنڈ بھارت‘ کے نقشے پر ہمسایہ ممالک برہم

انڈین پارلیمان کی نئی عمارت میں ایک نقشے کو ہمسایہ ملک ’توسیع پسندانہ ذہن‘ اور آزادی کے لیے خطرہ‘ قرار دے رہے ہیں۔

انڈین پارلیمان کی نئی عمارت میں دیوار پر لگا نقشہ جس میں پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال کو انڈیا کے اندر ضم کر لیا گیا ہے (ہندوستان ٹائمز/سکرین گریب)

انڈیا کی نئی پارلیمنٹ میں قدیم ’اکھنڈ بھارت‘ کے نقشے والی ایک دیوار گیر تصویر نے بنگلہ دیش، نیپال اور پاکستان کو ناراض کر دیا ہے۔

اس فن پارے میں انڈیا کو مغرب میں افغانستان، مالدیپ، سری لنکا اور بھوٹان سمیت قریبی ممالک میں پھیلا ہوا دکھایا گیا ہے۔

’گریٹر انڈیا،‘ جس کو ہندی میں ’اکھنڈ بھارت‘ کہا جاتا ہے، کا تصور سخت گیر قوم پرستوں کے نظریے سے میل کھاتا ہے۔

بنگلہ دیش نے دہلی میں اپنے سفارت کاروں کو حکم دیا ہے کہ وہ اس نقشے کی وضاحت طلب کریں جبکہ نیپال میں اس بارے میں مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔

وزیراعظم نریندر مودی نے گذشتہ ماہ کے اواخر میں 9.7 ارب انڈین روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والی پارلیمنٹ کی نئی بلڈنگ کا افتتاح کیا تھا۔

انڈیا نے کہا ہے کہ یہ نقشہ قدیم موریہ سلطنت کو ظاہر کرتا ہے اور یہ ’عوام پر مبنی‘ حکمرانی کے پھلنے پھولنے کے وقت کی نمائندگی کرتا ہے، اور اس کا ’سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔‘

یہ بیان مودی حکومت کے ایک وزیر کی جانب سے دیوار گیر نقشہ ٹویٹ کرنے کے بعد سامنے آیا ہے۔

پارلیمانی امور کے وزیر پرہلاد جوشی نے لکھا، ’عزم واضح ہے– اکھنڈ بھارت۔‘

بنگلہ دیش کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ شہریارعالم نے کہا کہ ان کی وزارت نے دہلی میں اپنے مشن کو ہدایت کی ہے کہ اس معاملے پر ’مزید وضاحت‘ طلب کی جائے۔

وزیر نے کہا کہ بنگلہ دیش کی حکومت کو دہلی کی وضاحت کے بعد میورل پر کوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن اپوزیشن جماعتوں کے دباؤ کے باعث وضاحت طلب کی جارہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عالم نے کہا، ’اس نقشے کی وجہ سے کافی غصہ پایا جا رہا ہے۔‘

انہوں نے کہا، ’اس کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ تاہم مزید وضاحت کے لیے ہم نے دہلی میں مشن سے کہا ہے کہ وہ انڈین وزارت خارجہ سے بات کریں تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ ان کی سرکاری وضاحت کیا ہے۔‘

میورل کا مسئلہ بنگلہ دیش کی حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) نے اٹھایا تھا۔

بی این پی کے جنرل سیکریٹری مرزا فخرالاسلام عالمگیر نے اتوار کو کہا تھا، ’بنگلہ دیش کو کسی دوسرے ملک کے غیر منقسم نقشے کا حصہ ظاہر کرنا، ملک کی آزادی اور خودمختاری کے لیے خطرہ ہے۔‘

پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز بلوچ نے بھی اس میورل پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اسلام آباد جوشی کے بیان سے ’حیران‘ ہے۔

انہوں نے کہا، ’اکھنڈ بھارت‘ کا بے بنیاد دعویٰ ایک توسیع پسندانہ ذہنیت کا مظہر ہے جو نہ صرف انڈیا کے پڑوسی ممالک بلکہ اس کی اپنی مذہبی اقلیتوں کی شناخت اور ثقافت کو بھی زیر کرنا چاہتا ہے۔‘

اس ماہ کے اوائل میں جب مودی نیپال کے دورے پر تھے تو وہاں بھی نقشے کے خلاف مظاہرے ہوئے اور ملک کے سیاسی رہنماؤں کی جانب سے اس پر تنقید کی گئی تھی۔

نیپال کے سابق وزیر اعظم کے پی شرما اولی نے کہا، ’انڈیا جیسا ملک جو اپنے آپ کو ایک قدیم اور مستحکم اور جمہوریت کے نمونے کے طور پر دیکھتا ہے نیپالی علاقوں کو اپنے نقشے میں شامل کر کے نقشہ اپنی پارلیمنٹ میں لٹکاتا ہے، اسے مناسب نہیں سمجھا جا سکتا ہے۔‘

انڈیا کی وزارت خارجہ نے دو جون کو ایک بیان میں کہا تھا کہ یہ نقشہ بادشاہ اشوک کے دور حکومت میں ہندوستانی تاریخ کے ایک وقت کو ظاہر کرتا ہے۔

اشوک قدیم موریہ خاندان کے سب سے کرشماتی حکمرانوں میں سے ایک تھا جس نے ایشیا میں بدھ مت کی ترویج میں اہم کردار ادا کیا۔

وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے کہا، ’مذکورہ نقشے میں اشوک سلطنت کے پھیلاؤ اور ایک ذمہ دار اور عوامی حکومت کے تصور کی عکاسی کی گئی ہے۔ یہ میورل کے سامنے لگی تختی پر بھی لکھا ہے۔‘

تاہم اکھنڈ بھارت کے تصور کا حوالہ اکثر حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی طاقتور نظریاتی سرپرست تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے دیا ہے۔

اسی طرح کے نقشے مبینہ طور پر اس کے کچھ نمایاں رہنماؤں کے دفاتر میں بھی آویزاں کیے گئے ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا