بلوچستان: مسلح افراد نے ضلع قلات سے چھ مزدور اغوا کر لیے 

بلوچستان میں کوئلہ کان کن اکثر حادثات اور شدت پسندوں کے حملوں میں نشانہ بنتے اور اغوا ہوتے ہیں اور رواں سال مزدوروں پر حملوں کا یہ تیسرا واقعہ ہے۔ 

30 جون 2010 کی اس تصویر میں بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے شمال مغرب میں چمالانگ کی کوئلے کی کان میں مزدور کام کرتے ہوئے (اے ایف پی)

بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے گزگ سے نامعلوم مسلح افراد نے ایک قدرتی چشمے پر کام کرنے والے چھ مزدوروں کو اغوا کر لیا ہے، جن کی بازیابی دو روز گزرنے کے بعد بھی تاحال نہیں ہو سکی ہے۔

ضلع قلات کا یہ علاقہ گزگ دور دراز اور پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے اور یہ شورش سے متاثرہ علاقوں میں شامل ہے۔ یہاں پر مواصلات اور ٹیلی فون کے رابطوں میسر نہیں، جبکہ مسلح افراد کی جانب سے یہاں پر موبائل فون کے ٹاورز کو بھی نشانہ بنا جاتا رہا ہے۔ گزگ کے علاقے میں اکثر لہڑی قبائل رہتے ہیں۔ 

ڈپٹی کمشنر قلات منیر درانی نے بتایا کہ گزگ کے علاقے میں چھ جون کو ایک قدرتی چشمے پر کام کرنے والے چھ مزدوروں کو مسلح افراد نے اغوا کر لیا تھا، جن کی بازیابی کے لیے ضلعی انتظامیہ نے کوششیں جاری رکھی ہیں، اور مقامی معتبرین کے ذریعے بازیابی کی کوشش کر رہے ہیں۔ 

منیر درانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’واقعہ اس طرح ہوا کہ مزدوروں کو مسلح افراد نے پہلے آ کر دھمکایا اور کام بند کرنے کا کہا۔ انہوں نے کسی کو مزید کچھ نہیں کہا اور واپس جانے لگے، اس دوران ٹھیکیدار کے ساتھ موجود ایک بندے نے ان پر اپنے کلاشنکوف سے فائرنگ کر دی، جس پر وہ واپس آ کر مزدور ساتھ لے گئے، اور مشینری بھی جلا دی۔‘ 

ڈپٹی کمشنر قلات کے مطابق، ’اس علاقے میں قدرتی پانی سے زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے ایک چھوٹا سے پراجیکٹ پر کام ہو رہا تھا، جس کے تحت پانی کے راستے کو بنایا جا رہا تھا۔‘ 

انہوں نے کہا، ’ہماری کوششیں جاری ہیں کہ قبائلی طریقے سے مسئلہ حل ہو جائے اور مزدوروں کو بازیاب کرایا جائے، امید ہے کہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

منیر درانی نے بتایا کہ ’جب سے میں نے چارج سبنھالا ہے سات مہینوں کے دوران یہ مزدوروں کے اغوا کا پہلا واقعہ ہے، اس سے قبل بھی اس علاقے میں مسلح افراد سرگرم رہتے ہیں، مزدوروں کے اغوا کے واقعات پہلے بھی ہوئے ہیں۔‘ 

انہوں نے کہا دو سالوں کے دوران قلات میں مزدوروں کے اغوا کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا تھا، یہ رواں سال کا پہلا واقعہ ہے، جس کے لیے ضلعی انتظامیہ تمام کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

بلوچستان میں کام کرنے والے مزدور جن میں تعمیراتی کام کرنے والے اور کوئلہ کان مزدور شامل ہیں، اکثر حادثات اور شدت پسندوں کے حملوں میں نشانہ بنتے اور اغوا ہوتے ہیں۔ رواں سال مزدوروں پر حملوں کا یہ تیسرا واقعہ ہے۔ 

اس سے قبل رواں سال فروری کے مہینے میں ہرنائی کے علاقے میں کوئلہ کان پر مسلح افراد نے حملہ کر کے فائرنگ کر کے چار مزدوروں کو قتل اور تین کو زخمی کر دیا تھا۔ 

اپریل کے مہینے میں ضلع مستونگ کے علاقے دشت میں سابق وفاقی وزیر ہمایوں عزیز کرد کی کوئلے کی کان پر مسلح افراد نے حملہ کر کے مشینری جلادی تھی اور تین مزدور اغوا کر لیے تھے۔ 

مزدوروں کے اغوا کے واقعات ضلع کچھی کے علاقے بولان، ہرنائی، دکی، قلات سے زیادہ سامنے آتے ہیں، جہاں کوئلہ کانوں میں مزدور کام کرتے ہیں، اس کے علاوہ سڑکوں کی تعمیر کے لیے بھی کام کرنے والے مزدور بھی نشانہ بنتے ہیں۔ 

ان علاقوں میں بلوچ مسلح تنظیمیں سرگرم ہیں، جو اکثر اوقات فورسز پر حملے اور سرکاری تنصیبات کو نشانہ بناتے ہیں۔ 

اس حوالے سے وزیراعلیٰ بلوچستان کے ترجمان بابر یوسفزئی سے رابطہ کر کے مزدوروں کے اغوا کے واقعات اور امن و امان کے حوالے سے حکومتی اقدامات میں پوچھا گیا تو انہوں نے سوال دے کر کئی گھنٹوں کے بعد جواب نہیں دیا اور بار بار رابطہ کرنے پر انہوں نے فون نہیں سنا۔ 

 

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان