اغوا کاروں کے چنگل سے آزاد ہونے والے کان کن کی کہانی

بازیاب ہونے والے شانگلہ کے سرتاج نے بتایا کہ اغوا کار انہیں کئی روز تک پیدل چلاتے رہے، اور جب کھانا مل جاتا تو انہیں دے دیا جاتا ورنہ بھوکے پیٹ ہی چلنا پڑتا۔

بلوچستان کے ضلع بولان میں کانوں میں کام کرنے والے مزدور اغوا کاروں کے چنگل سے آزاد ہونے کے بعد (اہل خانہ سرتاج) 

دو ہفتے قبل بلوچستان کے ضلع بولان سے اغوا ہونے والے چھ کان کنوں میں سے پانچ بازیاب ہو گئے ہیں۔

بازیاب ہونے والے کان کنوں میں ایک خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ سے تعلق رکھنے والے سرتاج بھی ہیں، جنہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو ان پر گزرنے والے احوال کی کہانی سنائی۔

’یہ 12 نومبر کی شام تھی، جب ڈنڈوں اور بندوقوں سے لیس تقریباً آٹھ نقاب پوش کوئلے کی کان میں داخل ہوئے، اور ہمیں اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔ بےبسی کے عالم میں ہم ان کے پیچھے کسی گمنام منزل کی جانب پیدل چل پڑے۔‘

خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ سے تعلق رکھنے والے 48 سالہ سرتاج کے اغوا ہونے والے چھ ساتھیوں میں سے چار کا تعلق شانگلہ سے ہے، جبکہ باقی دو ضلع کوہستان اور افغانستان کے رہنے والے ہیں۔

اغوا کاروں کی قید میں 16 دن گزارنے کے بعد 28 نومبر کو پانچ کان کنوں کو بازیاب کروا لیا گیا، تاہم کوہستان سے تعلق رکھنے مغوی برکت تاحال بازیاب نہیں ہو سکے ہیں۔

برکت کے بارے ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ اغوا کاروں نے انہیں دشوار گزار راستوں پر چلنے کے قابل نہ ہونے کے باعث اپنے پاس روک رکھا ہے۔

سرتاج نے بتایا: ’برکت نے اغوا کاروں کی رو رو کر منت سماجت کی کہ انہیں بھی جانے دیا جائے، لیکن انہوں (اغوا کاروں) نے کہا کہ برکت کو بعد میں بھیجا جائے گا۔‘

سرتاج نے اغوا کے فوراً بعد کا احوال سناتے ہوئے کہا کہ اغوا کار انہیں پورا عرصہ پیدل چلاتے رہے، راستے میں وہ پڑاؤ ڈالتے اور دو تین دن بعد آگے روانہ ہو جاتے۔

’ہم سارا وقت کھلے آسمان تلے رہے۔ پہلے دن ہم نے تقریباً نو گھنٹے مسلسل سفر کیا ہو گا۔ پھر تین دن ایک ویرانے میں قیام کیا۔

’اغوا کار ہم پر دن رات نظر رکھتے، ہمیں بھاگنے کا کوئی موقع نہ ملا۔ اغوا کاروں کی رنگت سانولی، بال لمبے اور شکلیں خوفناک تھیں۔ وہ زیادہ وقت اپنے چہروں کو نقابوں سے ڈھکے رکھتے،  اور ہم سے دور بیٹھتے، لیکن ان کی زبان ہمارے پلے نہیں پڑ رہی تھی۔‘

سرتاج کا مزید کہنا تھا کہ ’جہاں کھانا میسر ہو جاتا تو ہمیں کھلا دیا جاتا ورنہ ہم بھوکے رہتے، اغوا کار بھی وہی کھاتے، جو ہمیں کھانے کو دیا جاتا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ اغوا کاروں کی قید میں انہیں وقت کے گزرنے کا کوئی اندازہ نہیں رہا تھا، اور بالکل معلوم نہیں ہو پایا کہ ان کی حراست میں کتنے دن گزر چکے تھے۔

’آزاد کرنے سے قبل اغوا کاروں نے ہمیں ایک خاص سمت چلنے کا کہا، اور کچھ سفر طے کرنے کے بعد پہنچ گئے۔‘

سرتاج نے بتایا کہ ان سے قبل کئی واقعات میں کان کنوں کو ہلاک بھی کیا جا چکا ہے، لہذا انہیں بھی ڈر تھا کہ کہیں ان کا بھی وہی انجام نہ ہو۔

اغوا کاروں کے چنگل سے آزاد ہو کر آنے والے شانگلہ کے سرتاج نے کہا اب وہ دوبارہ بلوچستان نہیں جائیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بولان کی کانوں میں کام کرنے والے کان کن رشید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کوہستان سے تعلق رکھنے والے مغوی برکت ابھی تک واپس نہیں پہنچے ہیں۔

رشید کا کہنا تھا کہ اکثر ایسے واقعات میں پیسوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے، جبکہ اس کیس میں ایسا کوئی مطالبہ بھی سامنے نہیں آیا۔

انہوں نے کہا کہ ضلع بولان کی تحصیل مچھ میں واقع اس کان کی لیز کُرد بلوچوں کے پاس ہے، جنہوں نے اپنے مزدوروں کو بازیاب کروانے کے لیے کافی کوششیں کیں۔

کان میں کام کرنے والے مزدوروں نے شانگلہ سے تعلق رکھنے والے پاکستان مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عباداللہ خان کی مغوی کان کنوں کی بازیابی کی غرض سے کی گئی کوششوں کی تعریف کی۔

رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عباد اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ مغوی کان کنوں کو 29 نومبر کو الپوری روانہ کر دیا گیا تھا۔

گذشتہ دس سال سے زیادہ عرصے سے پاکستان بھر میں شانگلہ سے تعلق رکھنے والے کان کنوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے ڈاکٹر عباد اللہ

کا کہنا تھا کہ سینکڑوں افراد کے مختلف کانوں میں حادثات اور دوسرے واقعات کا شکار ہونے کے باوجود ان کے ضلعے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بڑی تعداد اسی روزگار کے ساتھ منسلک ہے۔

شانگلہ سے پاکستان تحریک انصاف کے منتخب نمائندے صوبائی وزیر محنت شوکت علی یوسفزئی نے بھی درجنوں نوجوانوں کو کان کی ملازمت سے چھٹکارا دلوا کر روزگار کے دوسرے ذرائع مہیا کرنے کا دعویٰ کیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی