کراچی یونیورسٹی میں لڑائی جھگڑے کے الزام میں ایک طالب علم کی گرفتاری اور مقدمہ درج ہونے پر جمعے کو طلبہ نے احتجاج کیا اور جامعہ کے سلور جوبلی گیٹ کے سامنے یونیورسٹی روڈ کو بلاک کر دیا۔
احتجاج کرنے والے طلبہ نے مطالبہ کیا کہ مقدمہ ختم کر کے گرفتار طالب علم کو رہا کیا جائے۔
کراچی یونیورسٹی کے کیمپس سکیورٹی ایڈوائزر ڈاکٹر معیز خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ جمعرات کو کراچی یونیورسٹی کے صوفی ہوٹل پر پیش آیا۔ جہاں ہسٹری شعبے کے طالب علم عدیل احمد کھانا کھا رہے تھے کہ ان کی کسی بات پر احتشام حیدر نامی لڑکے سے تلخ کلامی ہوگئی۔
انہوں نے کہا کہ تھوڑی دیر بعد احتشام حیدر اپنے دوست علی عباس کو لے آئے اور عدیل احمد کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ عدیل احمد نے ون فائیو پر کال کرکے مبینہ ٹاون تھانے کی پولیس کو طلب کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر معیز خان کے مطابق: ’ہم نے گرفتار ہونے والے احتشام حیدر اور ان کے دوست علی عباس سے یونیورسٹی کے طالب علم ہونے کا ثبوت مانگا، مگر دونوں کے پاس کوئی کارڈ یا شناخت نہیں تھی۔ اگر کوئی شناخت ہوتی تو ہم پولیس سے بات کرتے۔ مگر آج پولیس نے مقدمہ درج کرلیا۔
’آج صبح ہم نے ریکارڈ چیک کیا تو پتہ چلا کہ احتشام حیدر کراچی یونیورسٹی کے طالب علم ہیں مگر ان کا دوست علی عباس کراچی یونیورسٹی کا طالب علم نہیں ہیں۔‘
مبینہ ٹاون تھانے کے ڈیوٹی افسر رمضان نے بتایا: ’کسی کے پریشر پر ایف آئی آر درج نہیں کی بلکہ احتشام حیدر اور ان کے دوست علی عباس نے کراچی یونیورسٹی کے طلاب علم عدیل احمد پر شدید تشدد کیا اور فائرنگ کر کے جان لینے کی کوشش کی، اس لیے دونوں ملزمان کو گرفتار کرکے مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔‘
دوسری جانب احتجاج میں شامل امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے ترجمان حیدر نقوی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ طالب علم عدیل احمد اور احتشام حیدر کے درمیان معمولی بات پر لڑائی ہوئی۔
’لڑائی کے بعد محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے ایک افسر کے قریبی رشتہ دار طالب علم عدیل نے پولیس کو بلایا اور تلخ کلامی کرنے والے طالب علم کو گرفتار کرا دیا۔‘
حیدر نقوی کے مطابق پولیس نے بعد میں طالب علم کے خلاف مقدمہ بھی درج کرلیا۔ ’اس لیے ہم نے احتجاج کیا اور مطالبہ کرتے ہیں کہ طالب علم کو رہا کیا جائے۔‘