کراچی یونیورسٹی: ہراسانی کے واقعے میں ملوث چھ ملزمان گرفتار

آئی بی اے کے طالب علم سید شہیر علی نے اپنی فیس بک پوسٹ میں انہیں اور ساتھی طالبہ کو یونیورسٹی کے اندر مبینہ طور جنسی ہراساں کیے جانے کے واقعے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے اسے حال ہی  میں لاہور موٹروے پر ہونے والے گینگ ریپ سے تشبیہ دی تھی۔

یونیورسٹی روڈ پر واقع کراچی یونیورسٹی کا سلور جوبلی گیٹ (تصویر: سوشل میڈیا)

پولیس کا کہنا ہے کہ کراچی یونیورسٹی کے اندر دو طلبہ کو ہراساں کیے جانے کا مقدمہ درج کرکے جمعرات کو چھ مشتبہ نوجوانوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے، جن کی متاثرہ طالب علم نے شناخت کرلی ہے۔ 

مبینہ ٹاؤن پولیس تھانے کے سٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) محمد شاہد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’گذشتہ رات کراچی یونیورسٹی کے اندر واقع انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کے طالب علم سید شہیر علی کی مدعیت میں انہیں اور ان کی ساتھی طالبہ کو ہراساں کرنے کا مقدمہ آٹھ سے دس نوجوانوں کے خلاف درج کیا گیا ہے، ان میں سے چھ نوجوان اس وقت زیر حراست ہیں، جن کی شناخت بھی ہوگئی ہے جبکہ باقی ملزمان کو بھی جلد ہی گرفتار کرلیا جائے گا۔‘

ایس ایچ او کا مزید کہنا تھا کہ جامعہ کی انتظامیہ پولیس کے ساتھ مکمل تعاون کررہی ہے۔

آئی بی اے کے طالب علم سید شہیر علی نے گذشتہ روز اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں انہیں اور ان کے ساتھ موجود طالبہ کو یونیورسٹی کے اندر مبینہ طور جنسی ہراساں کیے جانے کے واقعے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے اسے حال ہی  میں لاہور موٹروے پر ہونے والے گینگ ریپ سے تشبیہ دی تھی۔

ان کی اس پوسٹ کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بحث شروع ہوگئی اور ٹوئٹر پر ’کراچی یونیورسٹی از ناٹ سیف‘ یعنی ’کراچی یونیورسٹی محفوظ نہیں‘ کا ہیش ٹیگ پاکستان میں ٹرینڈ کرتا رہا۔

طالب علم سید شہیر علی نے اپنی فیس بک پوسٹ میں لکھا کہ ’وہ گذشتہ رات ایک دوست کی سالگرہ سے رات ساڑھے 11 بجے واپس جامعہ کراچی آئے اور ایک ساتھی طالبہ کو آئی بی اے کے گرلز ہاسٹل میں چھوڑنے کے بعد وہ اپنی دوسری ساتھی طالبہ کو چھوڑنے کے لیے یونیورسٹی کے مسکن گیٹ کی طرف روانہ ہوئے۔‘

واضح رہے کہ کراچی یونیورسٹی کے چار داخلی اور خارجی راستے ہیں، جن میں سے دو یعنی سلور جوبلی اور شیخ زید مین یونیورسٹی روڈ پر واقع ہیں جبکہ ایک گیٹ ابوالحسن اصفہانی روڈ پر واقع مسکن چورنگی کی طرف واقع ہے، جسے عام طور پر آئی بی اے کے طلبہ اور اساتذہ استعمال کرتے ہیں کیوں کہ وہاں سے آئی بی اے قریب پڑتا ہے۔

اس گیٹ سے داخل ہونے کے بعد یونیورسٹی کے اندر جانے والے راستے پر کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ، آئی بی اے کے بوائز اور نیو بوائز ہاسٹل واقع ہیں، مگر عام طور پر یہ راستہ ویران ہوتا ہے اور کراچی یونیورسٹی کے طلبہ کے مطابق شام کے بعد اس راستے پر سٹریٹ لائٹس بھی نہیں ہوتیں۔

سید شہیر علی کے مطابق جب وہ کراچی یونیورسٹی کے آئی بی اے گرلز ہاسٹل میں اپنی ساتھی کو چھوڑنے کے بعد واپس جارہے تھے کہ چار موٹرسائیکلوں پر سوار تقریباً 10 نوجوانوں نے ان کی گاڑی کو روکا اور ان کے ساتھ بدسلوکی کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے مطابق: ’ہمیں روکنے والے نوجوانوں کی عمریں 15 سے 25 سال کے درمیان تھیں اور میں اور میری ساتھی طالبہ خود کو غیر محفوظ تصور کر رہے تھے۔‘

اس حوالے سے کراچی یونیورسٹی کے سکیورٹی انچارج ڈاکٹر معیز خان نے بتایا کہ ’شکایت کرنے والے طالب علم نے ہراساں کرنے والے نوجوانوں کی تصاویر بھیجی تھیں، جن میں سے کچھ کی شناخت کرلی گئی ہے۔‘ انہوں نے اعتراف کیا کہ ’وہ مشکوک نوجوان یونیورسٹی کالونی کے رہائشی ہیں۔‘

دوسری جانب یونیورسٹی کے شعبہ اپلائیڈ کیمسٹری کے چیئرمین ڈاکٹر ریاض احمد کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات اس لیے ہو رہے ہیں کیونکہ یونیورسٹی انتظامیہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتی۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’میں کراچی یونیورسٹی کے اپلائیڈ کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ میں 1995 سے پڑھا رہا ہوں۔ گذشتہ دس سال میں یونیورسٹی انتظامیہ نے کٹوتیاں لگا لگا کر یونیورسٹی کو تباہ کر دیا ہے جبکہ دو سالوں سے صورت حال ابتر ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اپلائیڈ کیمسٹری سے مسکن گیٹ تک کوئی دو کلومیٹر کا فاصلہ ہے، مغرب ہوتے ہوتے اس سڑک پر ایوننگ کلاسیں ختم کرکے تقریباً پانچ ہزار لڑکے لڑکیاں پیدل، موٹرسائیکل یا گاڑیوں پر مسکن گیٹ کی طرف جا رہے ہوتے ہیں، لیکن آئی بی اے کی سرچ لائٹس کے علاوہ پوری سڑک پر گھپ اندھیرا ہوتا ہے۔ ہر 30 فٹ کے فاصلے پر بجلی کا کھمبا ہے مگر لائٹس نہیں ہیں۔‘

ڈاکٹر ریاض احمد نے بتایا: ’ایسے میں اندھیرا ہوتے ہی آپ کو سڑک پر تیز تیز چلتی ہوئے لڑکیاں نظر آتی ہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ کوئی شٹل بس سروس نہیں چلاتی جو دس سال قبل چلا کرتی تھی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان