میرے بیوی بچے کشتی کے ساتھ ڈوب گئے: پاکستانی نوجوان کی کہانی

24 سالہ پاکستانی نوجوان ایک سمگلر کو آٹھ ہزار ڈالر دے کر لیبیا سے اٹلی جانے والی مچھیروں والی کشتی پر سوار ہوئے۔ اس کے بعد ان پر کیا گزری؟

 یونان میں کشتی کے حادثے میں بچ جانے والا ایک نوجوان 14 جون 2023 کو  کلاماتا بندرگاہ پر موجود ہے (اے ایف پی)

یونانی اخبار ’کاتھیمیرینی‘ نے یونان کے ساحل کے قریب گذشتہ ہفتے کشتی الٹنے کے واقعے میں بچ جانے والے دو افراد کی کہانیاں شائع کی ہیں، جن میں سے ایک پاکستانی اور دوسرے شامی نوجوان ہیں۔

اس حادثے میں ابتدا میں 78 افراد کی اموات کی تصدیق کی گئی تھی جبکہ یونانی کوسٹ کارڈ نے اب تک 12 پاکستانیوں سمیت 104 افراد کو زندہ بچایا ہے۔ 

کشتی میں سوار افراد میں سے متعدد کا تعلق پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے تھا۔ پاکستانیوں کی اموات پر پاکستان میں آج یوم سوگ منایا جا رہا ہے جبکہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے انسانی سمگلروں کے خلاف ملک گیر کریک ڈاؤن بھی جاری ہے۔

یونانی اخبار میں شائع ہونے والے دونوں افراد کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ کشتی میں 700 کے قریب مسافر سوار تھے۔ انہوں نے تفصیل سے وہ حالات و واقعات بیان کیے ہیں جو ڈوبنے سے پہلے پیش آئے۔  

24 سالہ پاکستانی رانا

پاکستان سے تعلق رکھنے والے 24 سالہ رانا نے سمگلروں کے ہتھے چڑھنے سے لے کر کشتی ڈوبنے تک کے واقعات بیان کیے ہیں۔ اس سانحے میں رانا خود تو بچ گئے مگر ان کے بیوی بچے کشتی کے ساتھ ہی ڈوب گئے۔

رانا نے بتایا: ’ہم نے بہتر زندگی کے لیے اٹلی جانے کا فیصلہ کیا، اس لیے کہ وہیں میرا بھائی رہتا ہے۔ میں نے ’ر‘ نامی پاکستانی کو آٹھ ہزار ڈالر پیشگی دیے۔ اس سے طے پایا کہ جب ہم اٹلی پہنچیں گے تو میرا بھائی بقیہ رقم دے گا جو مجھے نہیں معلوم کہ کتنی ہو گی کیونکہ میرے بھائی نے (ادائیگی) کا بندوبست کر دیا ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’ر‘ نے مجھے اس میں سے دو ہزار ڈالر واپس دے دیے کہ میں یہ رقم لیبیا میں ’ا‘ نامی ایک شخص کو دے دوں۔ میرا اندازہ ہے کہ وہ اس کا بھائی تھا۔ وہ کشتی جس نے ہمیں یورپ لے جانا تھا، اسی کی تھی۔ 

’تقریباً ایک ماہ قبل ہم پاکستان سے ہوائی جہاز کے ذریعے دبئی اور وہاں سے مصر اور پھر ہوائی جہاز کے ذریعے لیبیا پہنچے۔ وہ ہمیں ایک گھر میں لے گئے جہاں ڈیڑھ سو کے قریب دوسرے لوگ ٹھہرے ہوئے تھے۔ ہم وہاں پانچ دن رہے اور پھر ’ا‘ ہمیں ایک اپارٹمنٹ میں لے گیا، جہاں تقریباً 200 لوگ مقیم تھے۔ 

’ہم وہاں تقریباً 20 دن رہے اور پھر ’ا‘ ہمیں شیشوں والے ایک مکان میں لے گیا جہاں تقریباً 300 لوگ رہ رہے تھے۔ ہم ایک رات وہاں رہے اور اگلے دن وہ ہمیں 12 کاروں میں لیبیا کے شہر تبروک کے ایک اپارٹمنٹ میں لے گئے۔ ہم وہاں کچھ دن رہے اور نو جون 2023 کو صبح کے وقت ٹرک میں ہمیں لیبیا کے ایک ساحل پر لے جایا گیا۔

’سمندر میں 30 میٹر لمبی مچھلیاں پکڑنے والی ایک بڑی کشتی تھی جو پرانی اور نیلے رنگ کی تھی۔ وہ ساحل سے ہمیں چھوٹی کشتیوں میں بٹھا کر بڑی کشی پر لے گئے۔ بڑی کشتی پر سوار ہونے کے بعد ہم نے دیکھا کہ اس کے نگران دو لوگ تھے۔ جب ہم کشتی پر سوار ہوئے تو انہوں نے بتایا کہ ہمیں کہاں بیٹھنا ہے۔ مجھے اوپری عرشے پر بٹھایا گیا اور میری بیوی اور بچوں کو ایک کیبن میں رکھا گیا۔‘

بقول رانا: ’ہمارا سفر جمعے کی صبح شروع ہوا۔ کشتی پر تقریباً 700 افراد سوار تھے۔ ہم تین دن تک سمندر میں سفر کرتے رہے کہ کشتی کا انجن خراب ہو گیا۔ وہاں ایک شخص کشتی کے انجن کو ٹھیک کرتا رہا، مگر یہ بار بار خراب ہو جاتا تھا۔ 13 جون 2023 کی شام کو سمگلروں نے کشتی کا انجن بند کر دیا تاکہ قریب سے گزرنے والے جہازوں کو آواز نہ آئے۔

’کشتی میں سوار کچھ مصریوں نے قریب سے گزرتے ہوئے ایک جہاز سے پانی مانگا۔ جہاز کے عملے نے پانی کے ڈبے پھینکے اور مصریوں نے سارا پانی اچک لیا اور ہمیں نہیں دیا۔ ہماری ان سے لڑائی شروع ہو گئی جس کے بعد انہوں نے ہمیں بھی تھوڑا سا پانی دیا۔  

’پھر عملے نے دوبارہ انجن سٹارٹ کیا اور کشتی آگے بڑھنے لگی۔ آدھے گھنٹے بعد کشتی کا انجن پھر بند ہو گیا۔ میں ڈر کے مارے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر دعائیں مانگنے لگا۔ اچانک مجھے کشتی ایک طرف جھکتی ہوئی محسوس ہوئی اور اس میں پانی بھرنے لگا۔ ہم کشتی کے اس حصے سے ہٹ کر دوسری جانب چلے گئے، مگر اس طرف وزن زیادہ ہو گیا جس کی وجہ سے کشتی ڈوبنے لگی۔ 

’کچھ لوگوں نے سمندر میں چھلانگ لگا دی اور کچھ نے کشتی کے مختلف حصوں کو پکڑ لیا۔ میں نے سمندر میں چھلانگ لگا دی، لیکن چونکہ مجھے تیرنا نہیں آتا تھا، میں اپنی پانی کی سطح پر پشت کے بل لیٹ کر انتظار کرنے لگا کہ کوئی آ کر مجھے بچائے۔ چند منٹ بعد ایک بڑا جہاز وہاں سے گزرا اور جو لوگ سمندر میں تھے، انہیں اٹھا کر یہاں لے آیا۔ جو لوگ باہر نہ نکل سکے وہ کشتی سمیت پانی میں ڈوب گئے، ان میں میری بیوی اور بچے بھی شامل تھے جو کیبن میں تھے۔

ایک اور یونانی اخبار To Vima کے مطابق رانا نے بتایا کہ ان کی بیوی نے سبز رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے اور ان کے سر پر سکارف تھا، جب کہ دونوں بچوں کے کپڑے سرخ رنگ کے تھے۔

شام سے تعلق رکھنے والے حسن

23 سالہ حسن شام کے دارالحکومت دمشق کے مضافات میں اپنے خاندان کے ساتھ رہتے تھے۔ اس سے پہلے وہ لبنان میں تین سال تک کام کر چکے تھے۔ پھر انہوں نے اپنے خاندان کی مالی مدد کرنے کی خاطر یورپ جانے کا فیصلہ کیا۔ ان کی نظر خاص طور پر جرمنی پر تھی۔

حسن نے بتایا کہ انہیں معلوم ہوا کہ ایک آدمی لیبیا کے راستے یورپ کے لیے غیر قانونی سفر کا کامیابی سے بندوبست کر سکتا ہے۔ انہوں نے اس شخص سے فون پر رابطہ کر کے اس سے درخواست کی کہ انہیں بھی کسی طریقے سے یورپ پہنچا دیا جائے۔

آگے کی کہانی انہی کی زبانی پیش کی جا رہی ہے:

’میرے والد نے ڈیلروں کے ساتھ ساڑھے چار ہزار ڈالر کا سودا کیا اور کہا کہ جب یہ اٹلی پہنچ جائے گا تب یہ رقم ملے گی۔ میں فروری میں قانونی طور پر شام سے ہوائی جہاز کے ذریعے لیبیا کے شہر بن غازی پہنچا، پھر وہاں سے طرابلس گیا۔ میں نے وہاں 40 دن کام کیا، لیکن انہوں نے مجھے اچھا معاوضہ ادا نہیں کیا۔ پھر ایک سمگلر مجھے ایک ٹھکانے پر لے گیا۔ میرے سفر سے پہلے کے دنوں میں مجھے مختلف ٹھکانوں پر رکھا گیا۔

’نو جون 2023 کو ایک ٹرک آیا اور ہم سب کو، جو تقریباً 300 لوگ تھے، ایک بندرگاہ پر لے گیا جہاں سے ہم نے بڑی کشتی کے ذریعے سمندر کا سفر کرنا تھا۔ تقریباً ڈھائی بجے، 40 لوگ ایک چھوٹی کشتی میں سوار ہوئے اور پانچ منٹ کے بعد ہم بڑی کشتی تک پہنچ گئے۔‘

تارکین وطن کے جہاز پر سوار ہونے کے بعد مزید کیا ہوا، اس حوالے سے حسن نے بتایا:

’چھوٹی کشتی کے تیسرے پھیرے میں میری باری آئی۔ تقریباً پانچ بجے ہم نے سفر شروع کیا۔ یہ ایک زنگ آلود، نیلے رنگ کی ماہی گیری والی کشتی تھی، جو 20 سے 25 میٹر لمبی تھی۔ مجھے شروع میں عرشے کے نیچے بٹھایا گیا مگر وہاں میرا دم گھٹنے لگا، جس کے بعد میں ایک ایک شخص کو دس یورو رشوت دے کر عرشے کے اوپر چلا گیا۔ اس شخص کو میں نے دوبارہ نہیں دیکھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ہم چار دن تک سمندر میں سفر کرتے رہے۔ انہوں نے ہمیں تھوڑا سا کھانا اور گندا سا پانی پینے کو دیا۔ میرے اندازے کے مطابق جہاز پر تقریباً 700 لوگ سفر کر رہے تھے۔ کپتان کے پاس سیٹلائٹ فون تھا۔ جب وہ آرام کرتا تھا تو کشتی کا کنٹرول ایک اور شخص سنبھال لیتا تھا۔ 

’سمگلر 15 کے قریب تھے جو ہمیں کنٹرول کرتے تھے، ہمیں کھانا اور پانی دیتے تھے اور فیصلے کرتے تھے۔ وہ جہاز کے اندر آزادانہ طور پر حرکت کر سکتے تھے، جب کہ ہمیں ادھر ادھر جانے کی اجازت نہیں تھی۔

’دوسرے دن کے بعد سے کشتی کے انجن میں خرابی پیدا ہو گئی تھی۔ 13 جون 2023 کو صبح بہت سے لوگوں نے شکایت کرنا شروع کر دی کیونکہ انہوں نے ہمیں کھانا اور پانی دینا بند کر دیا تھا اور بہت سے مسافروں کا خیال تھا کہ کپتان راستے سے بھٹک گیا ہے اور اب اسے نہیں معلوم کہ اٹلی کیسے پہنچا جائے۔ مجبوراً کپتان نے کوسٹ گارڈ کو مدد کے لیے کال کر دی۔

’آخر کار شام کے کوسٹ گارڈ کا ایک جہاز مدد کے لیے آیا، لیکن اسی دوران اچانک ہماری کشتی الٹ گئی اور ہم پانی میں ڈوب گئے۔ پھر انہوں نے ہمیں ایک کشتی کی مدد سے بچایا۔ مزید دو تین جہاز رات کے بعد آئے اور ہماری مدد کی۔ صبح ہمیں ان میں سے ایک میں منتقل کر دیا گیا اور یہ ہمیں بندرگاہ (کلاماتا) پر لے آیا جہاں ہم اب بھی ہیں۔ انہوں نے ہمیں پانی بھی دیا۔‘

حسن نے بچائے گئے افراد کی تصاویر دکھائے جانے پر ان میں سے سات کو سمگلنگ کے گروہ کے ارکان کے طور پر پہچان لیا۔

حسن نے بتایا کہ مسافروں میں سے کسی نے بھی لائف جیکٹ نہیں پہن رکھی تھی۔

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا