جانوں کو خطرے میں ڈال کر لوگ پاکستان کیوں چھوڑ رہے ہیں؟

قانونی طور پرمغربی ممالک جانے کے مواقع محدود ہیں اور بہت سے تارکین وطن ایسے ایجنٹوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو اکثر انسانی سمگلنگ میں ملوث ہوتے ہیں۔

حمید اقبال بھٹی کی زندگی اس وقت تک خوش حال تھی جب تک وہ دو دہائیوں سے سعودی عرب میں کام کر رہے تھے لیکن تین سال قبل پاکستان واپس آنے کے بعد وہ مایوسی کا شکار ہیں۔

کرونا وبا سے ملک کی معیشت کو نقصان پہنچا تھا اور ان کا ریستوران کا کاروبار بند ہوگیا۔ کام کے راستے محدود ہونے اور آسمان کو چھوتی مہنگائی نے گزر بسر کو مزید مشکل بنا دیا جس کے بعد 47 سالہ حمید نے یورپ پہنچنے کے لیے ایک سمگلر کو ساڑھے سات ہزار ڈالر سے زیادہ رقم ادا کی جہاں وہ پہلے جسی خوشحال زندگی کی تعمیر کر سکیں۔

حمید کے بھائی 53 سالہ محمد سرور بھٹی نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا: ’ایک وقت تھا جب وہ (حمید) فوری طور پر بچوں کی ہر فرمائش پوری کر دیتے تھے۔ لیکن پچھلے تین سالوں سے مالی حالات مسلسل خراب ہو رہے ہیں اور وہ ذہنی طور پر مستقبل کے حوالے سے بہت پریشان تھے۔‘

گذشتہ ہفتے یونان کے ساحل کے قریب حمید بھٹی اور ان جیسے سینکڑوں دیگر مسافروں  سمیت ڈوبنے والی کشتی حالیہ برسوں میں پناہ گزینوں کے پیش آنے والے بدترین واقعات میں سے ایک ہے۔

حمید اقبال بھٹی بھی اس حادثے کے بعد سے لاپتہ ہیں اور بہت سے دوسرے پاکستانیوں کی طرح انہیں بھی مردہ سمجھا جا رہا ہے۔

ان کے بھائی کے مطابق یہ حادثہ غیر قانونی طور پر یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے لوگوں کو درپیش خطرات کو اجاگر کرتا ہے۔

ملک کے معاشی بحران کی وجہ سے حالیہ مہینوں میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد تمام خطرات کے باوجود انتہائی مشکل سفر پر روانہ ہو رہی ہے۔

زرمبادلہ کی کمی سے دوچار پاکستان کی 350 ارب ڈالر کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے، افراط زر کی شرح ریکارڈ 38 فیصد کی سطح کو چھو رہی ہے۔ روپے کی تیزی سے گرتی ہوئی قدر اور بیرونی خسارے کی وجہ سے حکومت نے دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے گذشتہ سال کے دوران کئی سخت اقدامات کیے جن میں خام مال کی درآمد پر پابندی، ایندھن اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ بھی شامل ہے۔

لیکن اس کے ساتھ ہی ترقی اور ملازمتوں کو بہت بڑا نقصان پہنچا ہے۔ موجودہ مالی سال میں صنعتی شعبہ تقریباً تین فیصد سکڑ گیا ہے جس سے تقریباً 23 کروڑ آبادی کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان میں ہر سال 20 لاکھ سے زیادہ افراد کو روزگار کی ضرورت ہوتی ہے۔

11 سال عمان میں کام کرنے والے اشتیاق احمد نامی ایک تاجر گذشتہ سال گاڑیوں کے سپیئر پارٹس کا اپنا کاروبار شروع کرنے کی غرض سے وطن واپس لوٹے تھے لیکن اب وہ کہتے ہیں کہ انہیں واپس آنے پر افسوس ہے۔

اشتیاق احمد نے کہا: ’ہمارے ملک میں روزگار کے مواقع نہیں ہیں۔ اگر یہاں روزگار ہوتا تو کوئی بھی یورپ بھیجنے والے ایجنٹوں کے ہتھے نہیں چڑھتا۔‘

پاکستان افرادی قوت کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ملک ہے اور ان افراد کی جانب سے بھیجے جانے والے ترسیلات زر سے ملک کو چلانے میں مدد ملتی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار گذشتہ سال تقریباً ساڑھے آٹھ لاکھ افراد نے ملک چھوڑا جو 2016 کے بعد سب سے زیادہ تعداد ہے۔

لیکن قانونی طور پرمغربی ممالک جانے کے مواقع محدود ہیں اور بہت سے تارکین وطن ایسے ایجنٹوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو اکثر انسانی سمگلنگ میں ملوث ہوتے ہیں۔

انہیں مقامی طور پر ’ڈنکی‘ کہا جاتا ہے جو بہت سوں کے لیے ایک تیز، سستا یا یورپ پہنچنے کا واحد راستہ ہے۔

اشتیاق احمد نے کہا: ’اگر آپ کو (یورپ) جانا ہے تو قانونی طریقے سے ایسا کریں۔ اگر آپ ’ڈنکی‘ کا راستہ اختیار کرتے ہیں تو آپ کے مرنے کا 90 سے 95 فیصد امکان ہوتا ہے۔‘

یورپین یونین کی سرحدی اور کوسٹ گارڈ ایجنسی فرنٹیکس کے مطابق رواں سال جنوری اور مئی کے درمیان یورپ کی سرحد پر ایک لاکھ دو ہزار غیر قانونی تارکین وطن کا پتہ چلا جو پچھلے سال کے مقابلے میں 12 فیصد زیادہ تھا۔ یہ تعداد 2016 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیبیا کے راستے وسطی بحیرہ روم کو عبور کرکے خاص طور پر اٹلی اور یونان تک پہنچنے کی غیر قانونی کوشش کرنے والے افراد کی تعداد تقریباً دگنی ہے جو کل پناہ گزینوں کا تقریباً نصف ہے۔

فرنٹیکس کے ترجمان نے روئٹرز کو بتایا کہ مصر اور بنگلہ دیش کے شہریوں کے بعد فی الحال پاکستانی اٹلی میں تیسرے سب سے زیادہ تعداد میں رجسٹرڈ ہونے والے پناہ گزین ہیں جو لیبیا سے یورپ پہنچ رہے ہیں۔

پاکستان نے پیر (19 جون) کو کشتی کے تازہ ترین حادثے کے بعد قومی سوگ کا اعلان کیا تھا۔ حکومت نے اس واقعے میں جان سے جانے والوں کی تعداد 350 بتائی ہے۔

رواں سال متعدد دیگر پاکستانیوں کو بھی ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ 38 سالہ محمد ندیم اس کشتی پر سوار تھے جو فروری میں لیبیا کے قریب ڈوب گئی تھی جس میں 70 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

گجرات سے تعلق رکھنے والے ندیم کے تین بچے تھے اور وہ اپنی چھوٹی بہن اور ماں کے واحد کفیل تھے۔

ان کی والدہ کوثر بی بی کے مطابق وہ فرنیچر کی دکان پر سیلز مین کے طور پر کام کرتے تھے لیکن ان کی اجرت کم تھی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی نے مالی حالات کو بگاڑ دیا تھا۔

کوثر بی بی کے مطابق: ’ندیم کہتے تھے کہ وہ بیرون ملک جائیں گے تاکہ اپنے بچوں کے حالات بہتر کر سکیں۔ وہ کہتے تھے کہ میری زندگی گزر چکی ہے لیکن میں اپنے بچوں کا بہتر مستقبل چاہتا ہوں۔‘

ندیم کی والدہ نے نم آنکھوں کے ساتھ بتایا کہ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ ہمارے ساتھ ایسا ہو گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت