کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) کے ترجمان شارق فاروقی نے کہا ہے کہ خام تیل لے کر دوسرا روسی بحری جہاز منگل کو کراچی پہنچ گیا ہے جس پر لگ بھگ 55 ہزار میڑک ٹن تیل لدا ہوا ہے۔
اس سے قبل 45 ہزار میڑک ٹن خام تیل لے کر پہلا روسی جہاز 11 جون 2023 کو پاکستان پہنچا تھا۔
رواں سال اپریل میں وزیر پیٹرولیم مصدق ملک نے بتایا تھا کہ پاکستان نے روس کے ساتھ طے پانے والے ایک نئے معاہدے کے تحت رعایتی روسی خام تیل خریدنے کے لیے پہلا آرڈر دے دیا ہے۔
کے پی ٹی کے ترجمان کے مطابق روسی جہاز خام تیل کے ساتھ منگل کو بندرگاہ کی حدود میں داخل ہوا اور جہاز کے باقاعدہ لنگر انداز ہونے کے بعد اس سے تیل منتقل کرنے کے کام کا آغاز ہو جائے گا۔
کے پی ٹی کا کہنا ہے کہ دوسرا بحری جہاز فی الوقت کراچی بندر گاہ کے آؤٹر اینکریج میں لنگر انداز ہے۔ تمام جہاز پہلے آؤٹر اینکریج پر ہی پہنچتے ہیں جہاں سے کے پی ٹی کا پائلٹ جہاز کو پورٹ چینل میں لاکر برتھنگ یا باقاعدہ لنگر انداز کراتا ہے۔
تیل کی قمیت میں فوری کمی متوقع نہیں
معاشی تجزیہ کار ڈاکٹر اقدس افضل نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ بظاہر فوری طور پر صارفین کے لیے تیل قیمتوں کی مد میں کوئی خاطر خواہ کمی متوقع نہیں ہے۔
ڈاکٹر اقدس افضل نے کہا کہ ’عالمی منڈی میں بھی تیل کی قیمت نیچے آئی ہوئی ہے لیکن آنے والے وقت میں اس کے بہت سے فائدے ہوں گے، آگے چل کر جیسے جیسے عالمی منڈی میں تیل کی اگر قیمت بڑھتی ہے تو ہمارے پاس سستی توانائی کا ایک ذریعہ ہو گا ، کیوں کہ روس سے لائے جانے والے خام تیل کی قیمت زیادہ نہیں بڑھے گی جس سے پاکستانی صارفین کے لیے فائدہ ہو گا۔‘
ڈاکٹر اقدس افضل کا کہنا تھا کہ پاکستان میں عام طور پر مشرق وسطیٰ سے برآمد کیا گیا عرب لائٹ خام تیل استعمال کیا جاتا ہے اور اسی پر پاکستان کا زیادہ انحصار بھی ہے۔
’روس سے تیل کا پاکستان پہنچنا دونوں ممالک (پاکستان اور روس) کے درمیان نہ صرف بہترین تعلقات کا باعث بنے گا بلکہ یہ توانائی کے حصول کا بہترین متبادل بھی ثابت ہو گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صارفین پر اس کے اثرات کے حوالے سے ماہر توانائی ابوبکر اسماعیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان عرب ممالک سے جو تیل خریدتا ہے اس پر سفری لاگت دو ڈالر فی بیرل جب کہ روس سے تیل منگوانے پر سفری لاگت 10 ڈالر فی بیرل تک آتی ہے۔
ابوبکر اسماعیل کے مطابق ’اس طرح قیمت کا کوئی زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ تین یا چار فیصد سے زیادہ کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ پاکستان ڈیزل اور پیٹرول کی مقامی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے 80 فیصد سے زائد خام تیل اور پیٹرولیم مصنوعات درآمد کرتا ہے جو کہ درآمدی بل کا بڑا حصہ بنتا ہے۔‘
ابوبکر اسماعیل کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں آئل ریفائنریاں روس سے آنے والے خام تیل کو پراسس یا صاف کرنے کی صلاحیت تو رکھتی ہیں لیکن ان کے بقول روسی خام تیل کو پیٹرولیم مصنوعات میں بدلنے کی لاگت بھی زیادہ آئے گی۔‘
پاکستان اپنی ضروریات کا سب سے زیادہ خام تیل دنیا کے سب سے بڑے برآمد کنندہ سعودی عرب سے حاصل کرتا ہے۔
مغربی ممالک نے ماسکو کے خلاف پابندیوں کے تحت روسی تیل خریدنے کے لیے ہر ملک کے لیے 60 ڈالر فی بیرل پرائس کیپ عائد کر رکھی ہے۔
پاکستان کی طرف سے روس سے تیل برآمد کرنے کے معاہدے کی تفصیلات تو ظاہر نہیں کی گئی ہیں لیکن خام تیل کی پہلی کھیپ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس کی قمیت چینی کرنسی یوآن میں ادا کی گئی ہے۔