روسی تیل سے پاکستانی صارفین کو کتنا فائدہ پہنچے گا؟

وزیر مملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک نے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے اپنی پہلی حکومتی سطح پر درآمد شدہ روسی خام تیل کی ادائیگی چینی کرنسی میں کی ہے۔

روس سے اتوار کو خام تیل کی پہنچنے والی پہلی کھیپ کے بارے میں وزیر پٹرولیم مصدق ملک کا کہنا ہے کہ اس کی ادائیگی چینی کرنسی میں کی گئی ہے۔

وزیر مملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک نے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے اپنی پہلی حکومتی سطح پر درآمد شدہ روسی خام تیل کی ادائیگی چینی کرنسی میں کی ہے۔

تاہم مصدق ملک نے قیمت یا پاکستان کو ملنے والے ڈسکاؤنٹ سمیت معاہدے کی مزید تفصیلات نہیں بتائی ہیں۔

روسی خام تیل لے کر 183 میٹر لمبا بحری جہاز ’پیور پوائنٹ‘ اتوار کو کراچی کی بندر گاہ پہنچا تھا، جس میں 45 ہزار میٹرک ٹن تیل موجود تھا۔

کراچی پورٹ کے ترجمان نے پہلی کھیپ سے متعلق بتایا: ’روس سے آنے والے جہاز سے خام تیل نکالنے کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔‘

ریفائنری ذرائع کے مطابق جہاز سے تین ہزار میٹرک ٹن تیل پاکستان ریفائنری منتقل کردیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پیور پوائنٹ سے روسی خام تیل کی منتقلی منگل کو مکمل ہوجائے گی۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روسی تیل کی آمد سے پاکستانی صارفین کو کتنا فائدہ ہو گا؟

پاکستان میں عام طور پر مشرق وسطیٰ سے آنے والا عرب لائٹ خام تیل استعمال کیا جاتا ہے۔

پاکستان ڈیزل و پیٹرول کی مقامی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے 80 فیصد سے زائد خام تیل اور پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر انحصار کرتا ہے، جو کہ امپورٹ بل کا بڑا حصہ بنتا ہے۔

صارفین پر اس کے اثرات کے حوالے سے ماہر توانائی ابوبکر نے انڈپینڈنٹ اردو کو اپنے تجزیے میں بتایا کہ، ’روس سے خام تیل درآمد کیا گیا ہے جسے پاکستان کی ریفائنری میں صاف کیا جائے گا، جبکہ روسی خام تیل کی خاصیت عرب خام تیل سے الگ ہے۔‘

ان کا کہنا تھا: ’سعودی آئل کی نسبت روسی آئل کو جب ریفائن کرتے ہیں تو فی بیرل پٹرول کی پیداوار اس میں کم ہوتی ہے۔ روسی آئل عرب خام تیل سے کتنا سستا پڑتا ہے یہ بتانا ابھی مشکل ہے۔ ابھی ہمیں روسی تیل 52 ڈالر پر بیرل کے حساب سے پڑ رہا ہے لیکن اس کی سفری لاگت بہت زیادہ ہے۔

’اگر ہم متحدہ عرب امارات سے خریدتے ہیں تو اس کی سفری لاگت دو ڈالر فی بیرل ہے جبکہ روس سے منگوانے پر یہ لاگت 10 ڈالر فی بیرل تک پڑ رہی ہے۔ اس طرح قیمت کا کوئی زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ تین یا چار فیصد سے زیادہ کوئی زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔‘

ابو بکر کے مطابق روسی آئل میں فرنس آئل کی مقدار زیادہ ہو گی اور جو عرب ممالک سے تیل خریدتے ہیں اس میں پٹرول 30 فیصد تک اور فرنس آئل 42 فیصد تک  ہوتا ہے۔

’ہم نے حال ہی میں فرنس آئل خسارے میں برآمد کیا جبکہ روسی آئل میں پیٹرول 15 فیصد اور فرنس آئل 50 فیصد تک ہوجاتا ہے۔ تو بچت پھر بہت کم رہ جائے گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ابو بکر نے روسی خام تیل کی ادائیگی کے حوالے سے کہا کہ خام تیل کی ادائیگی ڈالر میں نہیں کریں گے۔

’بلکہ ہوسکتا ہے کہ ہم چینی کرنسی استعمال کریں۔ سعودی عرب جو ہمیں تیل دیتا ہے وہ موخر ادائیگی کی سہولت کے ساتھ دیتا  ہے۔ پاکستان کی ریفائنریاں جیسے کہ  پی آر ایل،  پارکو اور این آر ایل کے طویل مدتی معاہدے عرب ممالک سے ہوئے ہیں تو ان کی  صلاحیت کا تو 80 فیصد ان سے بک ہوا ہے، روس کی بجائے اگر پاکستان ایران سے تیل خریدے تو یہ زیادہ فائدہ مند ہوگا کیونکہ سفری لاگت بہت کم ہوجائے گی۔‘

معاشی امور پر گہری نظر رکھنے والے صحافی حارث ضمیر نے روسی خام تیل کی درآمدگی کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ روس سے جو تیل آیا ہے اس کی مقدار ایک لاکھ ٹن ہے۔

’اندازے کے مطابق  ہماری جو کُل کھپت ہے اس میں ڈیزل 76 لاکھ ٹن سالانہ استعمال ہوتا ہے جبکہ  پیٹرول 71 لاکھ ٹن استعمال ہوتا ہے۔ روس کے خام تیل صرف ایک لاکھ ٹن ہے اس کا حجم ضرورت کے لحاظ سے کم ہے۔

’دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو فوری طور پر اس روسی تیل کی درآمد سے ایک عام صارف کے لیے پیٹرول و ڈیزل کی قیمت کم نہیں ہو گی۔‘

انہوں نے کہا کہ یہ پہلی کھیپ ’ٹرائل کارگو‘ ہے۔

’اس خام تیل کو ریفائن کر کے پہلے یہ معلوم کیا جائے گا کہ اس سے پیٹرولیم مصنوعات یعنی ڈیزل، پیٹرول اور فرنس آئل کی کتنی پیداوار ہو گی۔ جبکہ قیمت کا تعین نہیں کرسکتے کیونکہ حکومت نے بھی اس کی ادائیگی کے حوالے سے کوئی موقف جاری نہیں کیا۔‘

ملک میں ڈیزل و پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کو قرار دیا جاتا ہے تو دوسری جانب پاکستانی روپے کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں سو روپے سے زائد بتدریج کمی ہوئی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت