ستیہ: بمبئی کا انڈر ورلڈ، جہاں گولی بھی چلتی ہے اور ناچ گانا بھی 

معلوم نہیں بمبئی انڈر ورلڈ کی دنیا آج کیسی ہے۔ مگر 25 برس قبل کیسی تھی؟ یہ جاننے کے لیے رام گوپال ورما کی ستیہ ایک بہترین فلم ہے۔ 

فلم کے دو مرکزی کردار ستیہ اور بھیکو مہاترے (رام گوپال ورما/آئی ایم ڈی بی)

کسی کو قتل کرنے سے پہلے اور بعد میں گینگسٹر کی زندگی کیسی ہوتی ہے؟ صبح سویرے قتل کے ارادے سے بیدار ہونا تھرلنگ ہے یا خوف ناک؟ کیا وہ خالی پیٹ ہی پستول نیفے میں اڑس کر نکل کھڑا ہوتا ہے یا پہلے ٹکا کر ناشتہ کرتا ہے؟

کیا وہ روز کی طرح اس دن بھی اپنی گرل فرینڈ کو گڈ مارننگ کا میسج کرتا ہے؟ اور ہاں کیا وہ اپنی ماں کو بتاتا ہے کہ صبح ذرا جلدی اٹھانا میں نے کسی کا بھیجہ اڑانا ہے؟ 

مجھے نہیں پتہ قتل کا ایک واقعہ سنتے ہوئے آپ کے اندر ایسے سوال جنم لیتے ہیں یا نہیں۔ لیکن ایک فلم ساز یا کہانی کار فوراً اپنے ذہن میں کڑیاں ملانا شروع کر دیتا ہے۔ یہی معاملہ رام گوپال ورما کا تھا۔ 

12 اگست، 1997 کی صبح رام گوپال ورما ’رنگیلا‘ اور ’ہم دل دے چکے صنم‘ جیسی مشہور فلموں کے پروڈیوسر جھامو سوگند کے دفتر بیٹھے تھے۔ اتنے میں فون پہ اطلاع ملی کہ گلشن کمار کا قتل ہو گیا ہے۔

جھامو نے ورما کو بتایا کہ صبح سات بجے گلشن کمار بیدار ہوئے اور مجھے کال کر کے کہا ساٹھے آٹھ بجے تک میں ایک دو لوگوں سے مل کر مندر جاؤں گا اور وہاں سے تمہارے آفس آ کر تم سے ملاقات کروں گا۔

اس دوران رامو کے ذہن میں کچھ ایسے سوال دوڑنے لگے جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔ 

انہی سوالات سے 25 برس قبل ’ستیہ‘ کا جنم ہوا جسے آج بھی بالی وڈ کی بہترین گینگسٹر فلموں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔

اس ماسٹر پیس کی چھاپ اتنی گہری ہے کہ بعد میں جس نے بھی انڈر ورلڈ پر فلم بنائی وہ ستیہ کے اثر سے نہ بچ سکا۔ وہ انوراگ کشیپ ہوں، وشال بھردواج ہوں یا ونس اپان آ ٹائم ان ممبئی والے ملن لوتھریا ۔ 

ستیہ 1998 میں ریلیز ہوئی۔ تب بالی وڈ میں ’دل سے‘، ’کچھ کچھ ہوتا ہے‘ اور ’پیار کیا تو ڈرنا کیا‘ جیسی میوزیکل رومانوی فلمیں راج کر رہی تھیں۔

شاید یہی وجہ تھی کہ ابتدا میں ستیہ شائقین کی توجہ حاصل نہ کر سکی۔ مگر جو 15-20 لوگ ایک شو میں جم کر بیٹھ گئے وہ اگلی مرتبہ اپنے ساتھ پوری ٹولی لے آئے۔

یوں فلم کی تشہیر ہوتی گئی۔ جن سینما گھروں سے ستیہ اتار لی گئی تھی وہاں دوبارہ لگی اور بالآخر اڑھائی کروڑ انڈین روپے میں بننے والی یہ کلاسک فلم 15 کروڑ انڈین روپے سے زیادہ کمانے میں کامیاب ہو گئی۔ 

خیر باکس آفس کامیابی یا ناکامی سے قطع نظر فلم کو کلاسک کا درجہ اس کے غیر روایتی پن سے ملا۔ یہ غیر روایتی پن فلم کی کہانی اور شوٹنگ سے لے کر کاسٹ تک ہر جگہ نظر آتا ہے۔ 

اگر آپ کو امیتابھ بچن کی فلمیں یاد ہوں تو اکثر و بیشتر اینگری ینگ مین انتقام کی آگ میں جل رہا ہوتا تھا۔ اس کی غنڈہ گردی کسی فرد یا بالعموم معاشرے سے اپنی محرومیوں کا بدلہ لینے کے گرد گھومتی تھی۔

یہ چلن دلیپ کمار کی بہترین فلموں میں سے ایک ’گنگا جمنا‘ سے شروع ہوا جسے امیتابھ نے 70 اور 80 کی دہائی میں سب سے زیادہ بکاؤ فارمولا ثابت کیا۔

اس کی چھاپ اتنی گہری تھی کہ نوے کی دہائی میں بننے والی فلمیں بھی اس فارمولے سے جان نہ چھڑا سکیں۔ ستیہ نے اسے بدل کر رکھ دیا۔

ستیہ کسی سے بدلہ نہیں لینا چاہتا۔ اس کا دماغ خالی سفید ورقہ ہے جس پر بچپن میں کچی پکی پنسل سے کسی نے کچھ نہیں لکھا۔ وہ دقیانوسی بالی وڈ ہیروز کی طرح معاشرے کی اصلاح کے جذبے سے آلودہ نہیں۔

حالات نے ایسے جہنم میں جھونک دیا جہاں زندہ رہنے کے لیے اسے گینگسٹر کا کارندہ بننا پڑتا ہے۔ شائقین کو اس کے بچپن کی محرومیاں تو درکنار اس کا پس منظر کا ہی معلوم نہیں ہو پاتا۔ 

 فلم میں ایک کے بعد دوسرے قتل سے ہٹ کر  گینگسٹرز کی زندگی کے عمومی پہلوؤں پر بہت توجہ دی گئی۔ وہ عام آدمیوں کی طرح ہنستے کھیلتے، محبت کرتے، بیوی کے ہاتھوں مار کھاتے دکھائی دیتے ہیں۔ انڈر ورلڈ کی ایک ایسی دنیا جہاں گولی بھی چلتی ہے اور ناچ گانا بھی۔ 

وہ لارجر دن لائف کریکٹر نہیں بلکہ ہم جیسے انسان ہیں۔ ہم سب جاننا چاہتے ہیں کہ غنڈے قتل سے پہلے اور بعد میں کیا کرتے ہیں؟

ان کا ناشتہ اور شاپنگ جیسے روز مرہ کے معمولات کیسے چلتے ہیں؟ رامو نے بہت تفصیل سے یہ پہلو دکھائے جو گینگسٹرز کا انسانی چہرہ تھے۔ 

غیر روایتی پن کی ایک مثال فلم کی کاسٹنگ ہے۔ 70 کی دہائی سے متوازی اور پاپولر سینما کی تقسیم بہت واضح اور گہری چلی آ رہی تھی۔

تب کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اجبنی اور غیر مقبول چہرے گینگسٹر جیسی پاپولر قسم کی فلم میں مرکزی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ رامو نے یہ کر دکھایا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خاص طور پر بھیکو مہاترے کے روپ میں منوج باجپائی کا کردار تاریخ ساز ثابت ہوا۔ اس نے بعد عرفان خان جیسے کئی اداکاروں کے لیے پاپولر سینما کا دروازہ کھول دیا۔

نواز الدین صدیقی اور راج کمار راؤ کی مین سٹریم ہندی فلموں میں انٹری اور کامیابی اسی کا تسلسل ہے۔

فلم کی بہترین اوپننگ کے ساتھ پس منظر میں یہ الفاظ گونجتے ہیں کہ ’ممبئی ایک ایسا شہر ہے جو سوتا نہیں، جاگتے ہوئے بھی خواب دیکھتا ہے۔ جہاں چمک کی بلندی ہے، جہاں خاموش اندھیرا ہے۔ جہاں انسانوں کے درمیان اس فرق نے ایک الگ دنیا بنائی ہے یعنی ممبئی انڈر ورلڈ۔‘

رام گوپال ورما ممبئی انڈر ورلڈ کو گلیمرائز نہیں کرتے، بڑے بڑے سیٹ نہیں لگاتے بلکہ تنگ گلیوں، بھینسوں کے باڑے، پوش بار رومز اور گندی دیواروں والے معمولی فلیٹس ہوبہو پیش کر دیتے ہیں۔

بمبئی کی حقیقی زندگی اور کیمرے کی آنکھ کے درمیان کوئی تکلف نہیں، کوئی ہیرا پھیری نہیں۔ 

معلوم نہیں بمبئی انڈر ورلڈ کی دنیا آج کیسی ہے۔ مگر 25 برس قبل کیسی تھی؟ یہ جاننے کے لیے رام گوپال ورما کی ستیہ ایک بہترین فلم ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم