انڈیا کے زیر انتظام خطے جموں و کشمیر میں پولیس نے جون میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران قومی ترانے کے لیے کھڑے نہ ہونے پر 12 افراد کو ایک ہفتے تک حراست میں لیے رکھا۔
25 جون کو ڈل جھیل کے قریب جموں و کشمیر پولیس کی جانب سے جموں اور کشمیر سائیکلسٹ ایسوسی ایشن کے تعاون سے منعقدہ ’پیڈل فار پیس‘ نامی ایونٹ کے دوران شوقیہ سائیکل سواروں اور دیگر افراد کو حراست میں لیا گیا تھا۔
تقریب میں جموں و کشمیر کے گورنر منوج سنہا اور سینیئر پولیس افسران بھی موجود تھے۔
انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق سری نگر سے تعلق رکھنے والے ان افراد کو تین جولائی کو ایگزیکٹو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا جہاں انہیں سات دن کی حفاظتی تحویل میں بھیج دیا گیا۔
عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ’اس بات کا ہر ممکن امکان ہے کہ یہ افراد امن کی خلاف ورزی کا ارتکاب کر سکتے ہیں اور اگر انہیں رہا کیا گیا تو عوامی امن میں خلل پڑ سکتا ہے۔‘
حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ مذکورہ بالا حقائق کے پیش نظر ایس ایچ او تھانہ نشاط سری نگر کو مذکورہ ملزمان کو آج سے سات دن کے لیے سینٹرل جیل سری نگر میں نظر بند رکھنے اور قانون کے تحت کیس کی کارروائی کرنے کی ہدایت دی جاتی ہے۔
انڈیا کے سرکاری خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کی رپورٹ کے مطابق ایونٹ کی اختتامی تقریب میں انڈیا کے قومی ترانے کے لیے لوگوں کے کھڑے ہونے کو یقینی بنانے میں ناکامی پر کچھ پولیس اہلکاروں کو بھی معطل کر دیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ کم از کم 14 افراد کو گرفتار کیا گیا۔
جمعرات کو سری نگر پولیس نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’12 لوگوں کو عمومی طور پر اچھے برتاؤ کے لیے پابند کیا گیا ہے تاہم یہ واضح کیا جاتا ہے کہ 14 شہریوں اور پولیس اہلکاروں کو گرفتار یا معطل کیے جانے کی خبریں مکمل طور پر غلط تھیں۔‘
ٹویٹ میں مزید کہا گیا: ’ایک غیر مصدقہ خبر گردش کر رہی ہے کہ 14 افراد بشمول پولیس اہلکاروں کو قومی ترانے کی توہین کرنے پر گرفتار یا معطل کیا گیا ہے۔ یہ واضح کیا جاتا ہے کہ یہ خبر مکمل طور پر جھوٹی ہے بلکہ 12 افراد کو عمومی طور پر سی آر پی سی کی دفعہ 107/151 کے تحت اچھے برتاؤ کے لیے پابند کیا گیا ہے۔‘
دی انڈپنڈنٹ نے اس بارے میں تبصرے کے لیے سری نگر پولیس سے رابطہ کیا ہے۔
دوسری جانب حراست میں لیے گئے افراد کے رشتہ داروں میں سے ایک نے انڈین ایکسپریس کو بتایا: ’متاثرین کے اہل خانہ بات کرنے میں ہچکچاتے ہیں کیوں کہ انہیں ڈر ہے کہ اس سے حراست میں لیے گئے افراد کو زیادہ نقصان پہنچے گا۔‘
تعزیرات ہند کی دفعہ 107 ایگزیکٹیو مجسٹریٹ کو امن کا خطرہ لاحق ہونے کی صورت میں کارروائی کرنے کی اجازت دیتی ہے جب کہ دفعہ 151 پولیس کو کسی قابل جرم عمل کو روکنے کے لیے کسی شخص کو گرفتار کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
انڈیا کے سرکاری ضابطہ اخلاق میں کہا گیا ہے کہ جب بھی ترانہ پڑھا جا رہا ہو یا بجایا جا رہا ہو تو سامعین کی اس پر توجہ مبذول ہونی چاہیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم ضابطہ اخلاق کے مطابق جب نیوز ریل یا دستاویزی فلم کے دوران ترانہ فلم کے ایک حصے کے طور پر چلایا جاتا ہے تو سامعین سے یہ توقع نہیں کی جاتی ہے کہ وہ کھڑے ہوں گے کیوں کہ کھڑے ہونے سے ترانے کی تکریم میں اضافے کی بجائے فلم کی نمائش میں خلل پڑتا ہے اور اس سے انتشار اور الجھن پیدا ہوتی ہے۔
جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے 2021 کے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ قومی ترانے کے لیے کھڑے نہ ہونا توہین اور آئین میں درج بنیادی فرائض کی پاسداری میں ناکامی کے مترادف ہو سکتا ہے لیکن یہ قومی وقار کی توہین کی روک تھام کے 1971 کے قانون کے تحت جرم نہیں ہے۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا ہے جب عدالت نے جموں میں ایک لیکچرر کے خلاف شکایت کو مسترد کر دیا جن پر 2018 میں کالج کی تقریب میں قومی ترانے کے لیے کھڑے نہ ہونے کا الزام تھا۔
لوگوں کے قومی ترانے کے لیے کھڑے ہونے کا انتخاب نہ کرنے کا موضوع انڈیا میں کافی عرصے سے زیر بحث رہا ہے جہاں کئی ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جب لوگوں نے ان افراد کو نشانہ بنایا جنہوں نے قومی ترانے کے دوران کھڑے ہونے سے انکار کیا تھا۔
2016 میں فلموں کی نمائش سے قبل سینما ہالز میں قومی ترانہ بجانا لازمی قرار دیا گیا تھا جب کہ دو سال بعد قومی ترانہ بجانا اختیاری کر دیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود قوم پرستوں کی جانب سے لوگوں کو قومی ترانے کی ’بے عزتی‘ کرنے پر نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
2018 میں فلم بینوں کے ایک گروپ نے بنگلور کے ایک سنیما ہال میں قومی ترانے کے لیے کھڑے نہ ہونے والے شخص سے ہاتھا پائی کی تھی۔
2016 میں قومی ترانے کے لیے کھڑے نہ ہونے پر چنئی میں کم از کم نو افراد پر حملہ کیا گیا تھا۔
اسی سال ایک وہیل چیئر پر موجود معذور شخص پر بھی قومی ترانے کے لیے کھڑے نہ ہونے پر حملہ کیا گیا۔
اس واقعے نے ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی تھی جب لوگوں کو اس طرح کے حملے کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
© The Independent