سوچیں کہ آپ اٹھارہویں صدی میں ہیں اور کالے رنگ کے گھوڑے پہ سواری کر رہے ہیں لیکن آپ کا گھوڑا میلا ہے۔
گھوڑے کی جلد پہ جگہ جگہ داغ دھبے پڑے ہوئے ہیں، زین کے اندر کھٹملوں کا بسیرا ہے، باگ میلی چیکٹ ہوئی وی ہے لیکن آپ کے پاس وقت نہیں ہے کہ اس کی صفائی کر سکیں۔
جب روزانہ صبح سویرے آپ نے خود چمک دمک کے کام پر نکلنا ہے تو کیچڑ اور گند میں لت پت گھوڑا آخر برداشت کیسے ہو سکتا ہے؟
صاف ستھرے گھوڑے کی ایک شان ہوتی ہے، کتنے دن تک آپ میلا گھوڑا دوڑا سکتے ہیں؟ ایک وقت آئے گا جب گھوڑا بیمار ہو گا یا تڑ سے گرے گا اور مر جائے گا۔
گھوڑے کی طرح ہماری گاڑی بھی پالتو جانور جیسی ہوتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ بے چاری صحیح معنوں میں بے زبان ہوتی ہے اور ہمیں رحم طلب آنکھوں سے دیکھ تک نہیں سکتی۔
نوٹ کریں کہ جس صبح گاڑی صاف ہوتی ہے اس دن ہمیں اس میں سے آوازیں بھی کم آ رہی ہوتی ہیں، سٹیئرنگ بھی لگ رہا ہوتا ہے کہ خود بہ خود چل رہا ہے اور کھڈوں شڈوں پہ بریک لگانے کا دل بھی کرتا ہے۔ جتنی زیادہ گاڑی میلی ہوتی جائے گی اتنا ہی ہم اسے بے دلی سے چلانا شروع کر دیں گے، یہ واقعی ہوتا ہے اور ہم سب کے ساتھ ہوتا ہے۔
کسی بھی ماڈل کی گاڑی ہو، روزانہ کی تھوڑی سی صفائی اس کی عمر میں چنگا بھلا اضافہ کر دیتی ہے۔
ہم میں سے کئی لوگوں کو اپنی گاڑی خود صاف کرنے کا تجربہ ہوا ہوگا، کیسا لگتا ہے جب ایک دم کوئی نئی خراش سامنے آتی ہے، بھلے باریک سی ہی کیوں نہ ہو؟
دل پہ نئیں جا کے لگتی ٹھک کر کے؟ جی ہاں، عین ویسی ہی لکیر دل پر بھی پڑ جاتی ہے جس لمحے سامنے آتا ہے کہ کل یہاں سے گاڑی کا پینٹ چمک رہا تھا اور آج کوئی ڈیش انسان گزرتے ہوئے ایویں چابی سے اس پہ لکیر ڈال گیا ہے۔
فائدہ لیکن خود صفائی کرنے کا یہ ہوتا ہے کہ روزانہ کی بنیادی پہ گاڑی کا حال احوال معلوم ہو جاتا ہے۔
وہی پالتو گھوڑے کی مالش والی بات ہے، آپ جتنا فریکونٹ کریں گے، اتنا زیادہ آپ کو علم ہو گا کہ کہاں کہاں کوئی دانہ ہے یا کیڑا وغیرہ کاٹ گیا ہے۔
پوری گاڑی پہ آپ کا ہاتھ چلے گا اور ایک ایک ڈینٹ اپنے آپ کو رجسٹر کرواتا جائے گا۔ پچھلا بمپر صاف کرتے ہوئے آپ سائلنسر میں بھی جھانک لیں گے اور جس دن ادھر ہلکی سی چکنائی نظر آئی آپ فوری طور پہ تیار ہو جائیں گے کہ استاد آیا جے غوری ۔۔۔ مطلب رنگ پسٹن وغیرہ کی طرف سے وقتی الرٹ ہو جائیں گے اور لمبا خرچہ بچ جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لمبے سفر پہ نکلیں تو آپ راستے میں کئی گاڑیاں دیکھتے ہوں گے، جو سڑک کنارے کھڑی ہوتی ہیں اور اچانک کسی خرابی کی وجہ سے مالک بے چارہ فیملی سمیت خوار ہو رہا ہوتا ہے۔
میرے ساتھ کئی بار ایسا ہوا، ایک دن بیٹھ کے سوچا تو اندازہ ہوا کہ یار گاڑی بے چاری کا اس میں قصور نہیں ہے، میں خود روزانہ کی بنیاد پہ کوئی خاص دیکھ ریکھ کا خیال نہیں رکھتا، اس دن سے گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے صفائی نہ بھی کروں تو ایک دو چکر لگا لیتا ہوں تاکہ اپ ڈیٹس مل جائیں کہ نیا رولا کیا آنے والا ہے۔
خود صفائی کا سب سے بڑا فائدہ اصل میں یہی ہوتا ہے کہ بمپر کے جوائنٹ اکھڑنے سے پہلے اندازہ ہو جاتا ہے، ٹائروں کی ہوا اور رگڑیں وغیرہ بندہ وقتی دیکھ لیتا ہے، کوئی انجن کی تار اوپر نیچے ہے تو اندازہ ہو جاتا ہے، آئل لیکج کہیں ہو تو وہ نظر آ جاتی ہے، اندر دروازوں میں زنگ وغیرہ پھیلنے سے پہلے نظر میں آ جاتا ہے اور جب وقت ملے تو ان ساری چیزوں کے لیے مستری صاحب کے پاس بھی چکر لگ جاتا ہے۔
ایک چیز یاد رکھیں بس آخر میں، گاڑی اپنے لیے صاف رکھیں۔ جس دن آپ نے گاڑی بیچنی ہوتی ہے اس دن جا کے اسے شوروم سروس کروائیں گے، سیٹیں کھلیں گی، قالین نکلے گا، فرش تک چمک جائے گا ۔۔۔ بندہ پوچھے یہی کام اس وقت کیوں نہیں کیے جب گاڑی آپ کے اپنے پاس تھی؟ ساری عمر بکرے تک گاڑی میں لاد کے لائے اور اسی خوشبو میں سب کو انجوائے کروایا، جب کسی دوسرے کو دینے لگے تو چمکا کے پیش کر دی ۔۔۔ ایسے کیسے بھائی؟
دو تین سال بعد مکمل سروس اور روزانہ تھوڑی سی محنت آپ کی گاڑی کو اچھی خاصی طویل عمر اور مستقل فٹنس دے سکتی ہے۔
اکثر گورے ماضی میں جا کے اپنے آپ سے خطاب کرتے ہیں، وہ سب تجربہ اپنے ’پاسٹ سیلف‘ کو بتاتے ہیں، جو ایک طویل عمر بعد ان کے ہاتھ آیا۔ میں اگر اُس حسنین جمال کو آج کوئی نصیحت کرنا چاہوں، سمجھانا چاہوں، جو بیس بائیس سال کا تھا اور جس نے کمپنی سے ملی ہوئی گاڑی کی آتما رولی ہوئی تھی، تو وہ یہی سب کچھ ہو گا۔
آپ اگر اُسی عمر کے آس پاس والے نوجوان ہیں، گاڑی ابا جی کی ہے اور منڈ کے رکھی ہوئی ہے تو ہرگز میری باتیں نہ سنیں، کوئی بات نہیں، ہاں آپ کے والد صاحب ایک ٹھنڈی آہ بھر کے آپ کو یہ بلاگ ضرور بھیجیں گے، شرط ہو گئی!