اسلام آباد سے لاہور جاتے اور آتے ہوئے مجھے بِلّی بہت یاد آتا ہے۔
اس وقت پیٹرول سستا تھا، اپن لوگ 140 پہ گاڑی دباتے اور سب سے رائٹ لین میں رکھتے ہوئے موٹر وے ساڑھے تین چار گھنٹے میں پار کر لیتے۔
بِلّی کہتا تھا کہ ’یار کی تسی موٹر وے دے مگر لگے او، آپاں سکون نال جی ٹی روڈ تے جاواں گے، جتھے دل کرے گا گڈی روکاں گے، چھ ست گھینٹیاں اچ پہنچ ای جانا۔‘ (کیا تم لوگ موٹروے پہ ہی سفر کرتے رہتے ہو، ہم لوگ آرام سے جی ٹی روڈ پر جائیں گے، جہاں دل کرے گا گاڑی روکیں گے، چھ سات گھنٹے میں پہنچ ہی جائیں گے۔)
وہ موٹر وے پہ بھی گاڑی ستر اسی کی سپیڈ پہ چلاتا تھا اور جس دن وہ چلاتا اس دن سارے پیچھے سو رہے ہوتے تھے، کیا پتہ وہ بھی سو جاتا ہو!
جب سے پیٹرول اکٹھا اتنا سارا مہنگا ہوا ہے تب سے میں خود بِلّی بنا ہوا ہوں۔ موٹر وے پہ درمیان والی لین میں گاڑی رکھ کے بے غم ہو جاتا ہوں۔ رِیں رِیں کر کے پانچ ساڑھے پانچ گھنٹے میں بندہ پہنچ ہی جاتا ہے۔
یہ سبق مجھے ایک تجربے سے ملا۔ رات کا وقت تھا، پیٹرول نے تازہ تازہ کمر توڑی تھی۔ گاڑی وہی 120 تیس پہ نَپ رہا تھا لیکن سوچا کہ یار اے سی بند کر کے شیشے کھول دوں تو شاید کچھ بچت ہو جائے۔
ناکامی نے میرے قدم چومے، چوّنی برابر جو کوئی فائدہ ہوا ہو۔ لاہور پہنچا تو پیٹرول والی سوئی وہیں کھڑی تھی جہاں پہنچنے کا مطلب سمجھیں کہ بس آٹھ ہزار تیل ہو گئے۔
واپسی پہ بھائی نے اے سی آن رکھا، رُکتا رُکاتا بلکہ سمجھیں ٹہلتا ٹہلاتا پہنچ بھی گیا بس سپیڈ کی سوئی 90 کلومیٹر فی گھنٹہ سے آگے نہیں جانے دی۔ اب تقریباً ساڑھے چار ہزار کا پیٹرول لگا تھا اور میں اپنے آپ کو بِلّی بِلّی محسوس کر رہا تھا۔
بعد میں پھر جی ٹی روڈ استعمال کر کے دیکھا، ادھر ٹال ٹیکس میں بھی تقریباً آٹھ سو روپے کا فرق تھا۔ جی ٹی روڈ پہ سمجھ لیں ایک سائیڈ کے ساڑھے چار ہزار کی بچت تھی۔ بات وہی کہ اے سی چلائیں مگر سپیڈ ستر اسی یا نوے سے اوپر نہ ہو!
اصل سائنس یہ ہے کہ ادھر آپ نے شیشے کھولے ادھر گاڑی کے انجن کو وقتا پڑ جاتا ہے۔ جو زور پہلے اے سی ڈال رہا تھا وہ سارا کا سارا اب ہوا کا پریشر ڈالتا ہے۔ ایسا خاص طور پہ ان گاڑیوں میں ہوتا ہے جو پچھلے پندرہ بیس سال کے اندر بنی ہیں۔
پہلے زمانے کی گاڑیوں میں ایروڈائنامک پن کا زیادہ خیال نہیں رکھا جاتا تھا۔ آپ غور کریں تو گولائیاں کم اور چوکور پن زیادہ ہوتا تھا۔ ابھی جو گاڑیاں بنتی ہیں وہ سو فیصد اس خیال سے ڈیزائن کی جاتی ہیں کہ ان کے شیشے بند ہوں گے تو مخالف سمت سے آنے والی ہوا کے پریشر کو یہ کس طرح کاٹیں گی۔
تیز رفتار سے جاتے ہوئے مدمقابل ہوا کا پریشر کم سے کم رکھنا اس لیے ضروری ہوتا ہے تاکہ گاڑی اچھی فیول ایوریج دے۔ انجن کو جتنا زور لگانا پڑے گا اتنا زیادہ وہ پیٹرول کھائے گا۔ جتنا زور کم لگے گا ظاہری بات ہے فیول ایوریج اسی حساب سے بہتر ہوتی جائے گی۔
تو اب ہوتا کیا ہے۔ جیسے ہی آپ شیشے کھول کے اپنی طرف سے پیٹرول بچا رہے ہوتے ہیں عین اسی وقت انجن پہ خواہ مخواہ کا زور پڑنا شروع ہو جاتا ہے۔ اے سی کا بھی زور پڑتا ہے لیکن وہ صرف اس وقت ہوتا ہے جب تھرموسٹیٹ کے حساب سے اے سی گاڑی کو ٹھنڈا کر رہا ہوتا ہے۔ جیسے ہی اے سی ٹرپ کرے گا انجن سکون کا سانس لے گا اور فیول ایوریج دوبارہ بہتر کر دے گا۔ شیشے نیچے ہوں تو جب تک گاڑی چل رہی ہے سب تک وہ سکون والا سانس انجن کو نہیں ملے گا۔ مستقل پریشر اور خواہ مخواہ کا۔
تو اس دوران جو پیٹرول لگے گا وہ گھما پھرا کے اتنا ہی بن جائے گا جتنا چلتے اے سی کے ساتھ ہونا تھا۔ اگر آپ نے بہت زیادہ بچت کر لی تو وہ دو سے ساڑھے سات فیصد کے درمیان ہو گی اور یہ میں نہیں کہہ رہا، یہ تحقیق نارتھ کیرولائنا یونیورسٹی امریکہ کی ہے جو 1997 سے 2018 کے درمیان ہوئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مطلب کیا؟ یعنی اسلام آباد سے لاہور جانے میں اگر ہزار سی سی گاڑی پہ آپ کا پچیس سے تیس لٹر پیٹرول لگ رہا ہے تو بہ مشکل ایک لیٹر آپ کا بچے گا۔ اس ایک لیٹر کے پیسے ویسے بھی تب پورے ہو جائیں گے جب آپ گاڑی اندر سے سروس کروائیں گے کیوں کہ کھلے شیشوں سے مٹی اچھی خاصی اندر آتی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ دھواں، گاڑیوں کا شور اور مسلسل پسینہ بونس میں ملے گا۔
امریکہ کی سرکاری ویب سائٹ جو شہریوں کو توانائی بچانے کے مشورے دیتی ہے، اس کے مطابق بھی اگر آپ ہائی وے پر ہیں تو شیشے کھولنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
اس ساری تحقیق کے دوران ایک بات مجھے اور پہ چلی کہ آپ اگر شہر میں گاڑی چلا رہے ہیں، چالیس پچاس کی سپیڈ ہے اور اس دوران شیشہ کھلا ہے تو بسم اللہ، کوئی دس سے پندرہ فیصد تک آپ پیٹرول کی بچت کر لیں گے لیکن پھر بھی اس سے زیادہ کا چانس کوئی نہیں، کیوں کہ معاملہ وہی ہوا کی رگڑ اور گاڑی کے بڑھتے ڈریگ کا ہے۔ فیول اکانومی ڈاٹ جی او وی اس صورت میں آپ کو اے سی ہلکے ٹمپریچر پہ رکھنے کا مشورہ بھی دیتی ہے۔ کلائمیٹ کنٹرول نہیں ہے تو اپنے ہاتھوں کو بار بار اس مقصد کے لیے استعمال کریں اور اے سی آن آف کرتے رہیں۔
ہاں، اگر انجن کمزور ہے گاڑی کا، تب جو مرضی کریں۔ یہ ساری لمبی چوڑی کہانی نارمل گاڑیوں کے لیے تھی۔
کمزور انجن سے مجھے یاد آیا، بِلّی کی گاڑی بھی اس وقت پرانی مارگلہ تھی اور وہ شاید سو فیصد حق پر تھا!