بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے بورڈ کا اجلاس آج (بدھ) کو ہوگا جس میں پاکستان کے لیے تین ارب ڈالر کے قلیل مدتی مالیاتی پیکج کی منظوری کے لیے ووٹنگ ہوگی۔
آئی ایم ایف نے 29 جون کو کہا تھا کہ پاکستان کے ساتھ سٹاف لیول معاہدہ طے پا گیا ہے جو کہ جولائی میں ادارے کے بورڈ کی منظوری سے مشروط ہوگا۔
نیا سٹینڈ بائی معاہدہ (ایس بی اے) پاکستان کے 2019 کے توسیعی فنڈ سہولت، جو جون کے آخر میں ختم ہوگیا، کے بعد حکام کی کوششوں کے باعث طے ہوا تھا۔
آئی ایم ایف نے نئے ایس بی اے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا، ’نیا ایس بی اے آنے والے وقت میں کثیر الجہتی اور دوطرفہ شراکت داروں سے مالی امداد کے لیے پالیسی سازی اور فریم ورک فراہم کرے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
منگل کو پاکستان نے کہا تھا کہ سعودی عرب نے اس کے مرکزی بینک میں دو ارب ڈالر جمع کرائے ہیں جبکہ متحدہ عرب امارات سے بھی ایک ارب ڈالر ملنے کی توقع ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے قرض دہندہ چین کی جانب سے قرضوں کی مدت واپسی میں توسیع بھی اس بیرونی فنانسنگ میں کلیدی کردار ادا کرے گی جس کا آئی ایم ایف نے پاکستان کو کہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افراط زر میں اضافے اور ایک ماہ کی درآمدات کے لیے زرمبادلہ کے ناکافی ذخائر کے باعث، اس بیل آؤٹ کے بغیر پاکستان کا معاشی بحران قرضوں کے ڈیفالٹ میں بدل جائے گا۔
آئی ایم ایف کا مشن فروری میں پاکستان آیا تھا اور اس نے اس وقت سے متعدد اقدامات کا مطالبہ کیا ہے، جن میں 2023-24 کے بجٹ پر نظر ثانی اور پالیسی ریٹ میں 22 فیصد اضافہ شامل ہے۔
آئی ایم ایف کی مالی ایڈجسٹمنٹ کو پورا کرنے کے لیے پاکستان نے نئے ٹیکسوں کی مد میں 385 ارب روپے (1.34 بلین ڈالر) سے زیادہ جمع کیے ہیں۔
آئی ایم ایف نے کہا کہ مرکزی بینک کو چاہیے افراط زر کو کم کرنے اور غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر برقرار رکھنے کے لیے فعال رہنا چاہیے۔
اس ایڈجسٹمنٹ کی وجہ سے پہلے ہی مئی میں افراط زر سال بہ سال 38 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے، جو ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔