آئی ایم ایف سے رقم ملنے کے بعد کتنی سرمایہ کاری متوقع؟

وزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک نے بتایا کہ ’اب آئی ایم ایف کے معاہدے کے بعد ریفائنری کی سرمایہ کاری بھی یقینی ہو گئی ہے یہ بہت بڑا منصوبہ ہے جس سے بہت سے لوگوں کے لیے نوکری کے مواقع پیدا ہوں گے۔‘

پاکستان کے شہر کراچی میں ایک مقامی آئل ریفائنری کے باہر آئل ٹینکرز پارک ہیں (اے ایف پی)

وزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک کا کہنا ہے کہ ’سعووی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات اور آذربائیجان پاکستان میں 10 سے 15 ارب ڈالر کی سرمایہ کریں گے۔‘

انہوں نے یہ بات انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہی ہے۔ اس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف بھی کہہ چکے ہیں کہ آئی ایم ایف سے حتمی معاہدہ ہونے کے بعد قرضوں سے جان چھڑانے کے لیے پاکستان میں سرمایہ کاری لانی ہو گی۔

گذشتہ برس اکتوبر میں بھی وزیراعظم شہباز شریف نے بیان دیا تھا کہ ’سعودی عرب 10 ارب ڈالر کی آئل ریفائنری پاکستان میں لگائے گا۔‘ لیکن آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے تمام غیرملکی سرمایہ کاری تعطل کا شکار ہو گئی تھی۔

ایڈیشنل سیکریٹری پیٹرولیم کے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں دیے گئے ایک بیان کے مطابق ’پاکستان میں آئل ریفائنری کی مناسب صلاحیت نہ ہونے کے باعث 70 فیصد پیٹرول اور ڈیزل درآمد کیا جاتا ہے۔ جس پر 70 کروڑ ڈالرز اضافی ادا کرنے پڑتے ہیں۔ ریفائنری کا منصوبہ پاکستان میں لگنے سے یہ اضافی ادائیگیاں نہیں کرنی پڑیں گی۔‘

وزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک نے بتایا کہ ’اب آئی ایم ایف کے معاہدے کے بعد ریفائنری کی سرمایہ کاری بھی یقینی ہو گئی ہے یہ بہت بڑا منصوبہ ہے جس سے بہت سے لوگوں کے لیے نوکری کے مواقع پیدا ہوں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ یہ کم از کم پانچ سال کا منصوبہ ہے اور پانچ سال میں پاکستان میں 40 ارب ڈالرز تک کی سرمایہ کاری ہو گی۔

حکومت کے سیاسی مخالفین آج کل مصدق ملک پر بیرونی سرمایہ کاری کے بارے میں بڑھا چڑھا کر بیانات دینے کا الزام عائد کرتے ہیں جن کا بظاہر مقصد عوامی اعتماد بحال کرنا ہے۔

مصدق ملک نے مزید بتایا کہ چین کے ساتھ بھی سی پیک سے منسلک ترقیاتی پروجیکٹ جو رکے ہوئے تھے وہ بھی شروع ہو چکے ہیں اور تکمیل کے مراحل میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ سرمایہ کاری نہ صرف آئل ریفائنری بلکہ معدنیات، جدید ایگری کلچر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں بھی کی جائے گی۔

مصدق ملک نے بتایا کہ ’آئی ایم ایف کے معاہدے کا ابھی یہ فائدہ ہوا ہے کہ اس سے مارکیٹ کو استحکام ملا ہے اور غیرملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھتا ہے جس کی وجہ سے وہ سرمایہ کاری سے ہچکچاتے نہیں ہیں۔‘

جب ان سے سوال کیا کہ یہ سرمایہ کاری کے نئے منصوبے کب شروع ہوں گے کیوں کہ آئندہ ماہ تو حکومت کی آئینی مدت مکمل ہو رہی ہے اور نگران حکومت میں بڑے پروجیکٹ شروع ہونے کا کیا امکان ہے؟ تو وزیر مملکت مصدق ملک کا کہنا تھا کہ ’40 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری 40، 50 دن میں تو نہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے سکیورٹی بنانی ہوتی ہے مربوط نظام بنانا ہوتا ہے۔ اس لیے نئے پروجیکٹ اتنی جلدی شروع ہونے کے لیے زمینی حقائق موجود نہیں ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان سے سوال کیا کہ میاں نواز شریف دبئی میں موجود ہیں وہاں وہ کاروباری افراد سے ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں تو یہ سرمایہ کاری کی یقین دہانی آئندہ آپ کی حکومت آنے کے ساتھ تو مشروط نہیں؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’بات منصوبوں کے کریڈٹ لینے کی نہیں ہے اچھا کام کریں گے یا برا وہ اگر آپ کے نام کے ساتھ جڑا ہے تو وہ رہے گا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’2013-2018 میں ان کی حکومت نے میٹرو، موٹروے سمیت ترقیاتی منصوبے لگائے جس کا ثمر آج عوام کو مل رہا ہے اور ابھی بھی جو منصوبے آئیں گے اس سے ملک کی معیشت کو سہارا ملے گا۔

’اب یہ سرمایہ کاری کرنے والے ممالک کے اعتماد پر منحصر ہے کہ ان کو اعتماد کس سے ملتا ہے۔‘

پاکستان میں عام انتخابات کے سوال پر انہوں نے کہا کہ انتخابات اکتوبر میں ہی ہوں گے یہ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں۔ میں نہیں سمجھتا کہ انتخابات آئندہ سال مارچ تک تاخیر کا شکار ہوں گے۔ حکومت کی آئینی مدت ختم ہونے کے 60 روز کے بعد انتخابات کا انعقاد ہو جائے گا۔

میاں نواز شریف کی واپسی کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ’تاریخ تو نہیں بتا سکتا کہ وہ کب آئیں گے لیکن یہ بتا سکتا ہوں کہ وہ بہت جلد پاکستان میں موجود ہوں گے اور جس دن وہ آئیں گے اس دن سے ہماری انتخابی مہم کا آغاز ہو جائے گا۔‘

حزب اختلاف کی جماعت کی موقف

حزب احتلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے اس معاہدے پر تحفظات کا اظہار ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما حماد اظہر کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کی کڑی شرائط ہیں جن سے عوام پر مہنگائی کا بوجھ پڑے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے دور میں آئی ایم ایف کا کامیاب جائزہ ایک معمول کی چیز تھی۔

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت