ریماؤنٹ مونا ڈپو: پاکستان میں عرب گھوڑوں کا سب سے بڑا مسکن

پاکستان میں منڈی بہاؤالدین میں واقع ریماؤنٹ ڈپو مونا فوجی اڈے میں 600 سے زیادہ عرب گھوڑے مل سکتے ہیں، جہاں ان جانوروں کو خاص طور پر گھڑ سواری کے کھیلوں اور ڈریسیج ایونٹس کے لیے تربیت دی جاتی ہے۔

اپنی لمبی اور محراب نما گردن، بڑے سر اور اونچی دم کے باعث عرب نسل کے گھوڑے دنیا میں سب سے زیادہ آسانی سے پہچانی جانے والی نسلوں میں سے ایک ہیں۔ یہ سب سے قدیم نسل والوں گھوڑوں میں سے ایک ہیں جن کے مشرق وسطیٰ سے ملنے والے آثار قدیمہ سے بھی شواہد ملتے ہیں اور موجودہ عرب نسل 45 ہزار سال پرانے گھوڑوں کی نسل سے مشابہت رکھتے ہیں۔

پاکستان میں منڈی بہاؤالدین میں واقع ریماؤنٹ ڈپو مونا فوجی اڈے میں 600 سے زیادہ عرب گھوڑے مل سکتے ہیں، جہاں ان جانوروں کو خاص طور پر گھڑ سواری کے کھیلوں اور ڈریسیج ایونٹس کے لیے تربیت دی جاتی ہے۔

1902 میں قائم کیا گیا یہ ڈپو دس ہزار ہیکٹر اراضی پر پھیلا ہوا ہے، جہاں سڑکوں، عمارتوں، ایک نہر اور ایک ٹرین لائن تک موجود ہے۔ یہ ڈپو گھوڑوں، گدھوں اور خچروں کی افزائش اور پرورش کے لیے ایک مرکز کے طور پر کام کرتا ہے۔

پاکستان نے تقریباً 70 سال پہلے عربی گھوڑوں کو درآمد کرنا شروع کیا تھا جہاں انہیں اکثر مقابلوں کے لیے قیمتی جانوروں کے طور پر رکھا جاتا تھا اور غیر ملکی مہمانوں اور سربرہان مملکتوں کو بطور تحفہ پیش کیا جاتا تھا۔

ڈپو کے کمانڈنٹ بریگیڈیئر محمد نعیم نے عرب نیوز کو بتایا کہ پاکستان کے پاس 808 عرب گھوڑے تھے جو ورلڈ عربین ہارس آرگنائزیشن (ڈبلیو اے ایچ او) کے پاس رجسٹرڈ ہیں جن میں سے 627 جانور مونا ڈپو میں موجود ہیں جب کہ باقی 181 ملک کے دیگر حصوں میں ہیں۔

ڈبلیو اے ایچ او کی بنیاد 1970 میں رکھی گئی تھی جس کا 82 ممالک کے ساتھ برطانیہ میں قائم ایک تنظیم بھی حصہ ہے جو خالص عربی بلڈ لائنز کو محفوظ رکھنے، افزائش نسل کے علم کو عالمی سطح پر فروغ دینے، ممبر کلبوں کو مربوط کرنے، نسل کی اصطلاحات میں یکسانیت قائم کرنے، اور عربی گھوڑوں سے متعلق دیگر امور پر مشاورت کرتی ہے۔

عرب گھوڑوں کی کون سی خصوصیات انہیں خاص بناتی ہیں؟

بریگیڈیئر نعیم نے کہا اس حوالے سے بتایا: ’گھوڑوں کی تمام نسلوں میں سب سے قدیم نسل جو مشہور ہے وہ عربی گھوڑا ہے جس کی ابتدا 2500 قبل مسیح جزیرہ نما عرب سے ہوئی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ یہ جانور اپنی ’غیر معمولی خوبصورتی‘ کے لیے مشہور تھے خاص طور پر جب وہ بھاگتے تھے اور اپنی خوبصورت شکلوں کے ساتھ اپنی دموں کو اٹھاتے ہوئے۔ اگرچہ عرب نسل کی ابتدا کا کسی کو معلوم نہیں لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ اس نسل کی ابتدا شام کے صحرا کے شمالی کنارے سے ہوئی تھی۔

نعیم کے مطابق: ’وہ بڑے پیمانے پر دنیا میں گھوڑوں کی مشہور نسلوں میں سے سب سے مقبول نسل کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔‘ پاکستان 1997 میں ڈبلیو اے ایچ او کا رکن بنا اور ریماؤنٹ مونا ڈپو ملک میں اس کا واحد نمائندہ تھا۔ اگرچہ یہاں گھوڑوں کی افزائش 1956 میں ایک شوق کے طور پر شروع ہوئی تھی لیکن ڈپو نے 2021 میں کامیابی کے ساتھ سائنسی طریقہ کار اپنایا جس میں ٹیسٹ ٹیوب پروگرام بھی شامل تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا : ’یہاں ہم نے کامیابی سے اب تک عرب گھوڑوں کے 15 ٹیسٹ ٹیوب بچوں کی پیدائش کا عمل مکمل کیا ہے جب کہ اس وقت مزید 12 گھوڑوں کی اس ٹیکنالوجی سے افزائش کا عمل جاری ہے۔ ڈپو میں پہلا عرب گھوڑا 1955 میں امریکہ سے اور اس کے بعد 31 دیگر مختلف ممالک سے درآمد کیا گئے تھے۔

بریگیڈیئر نعیم نے کہا: ’ایک درآمد شدہ عربی گھوڑے کی قیمت پانچ ہزار ڈالر سے 50 ہزار ڈالر تک ہوتی ہے جس کا انحصار جانور کے معیار اور نسل پر ہوتا ہے۔ تاہم انہوں نے بتایا کہ ایک عربی گھوڑے کی افزائش، پرورش اور تربیت کی لاگت مقامی طور پر تیار کردہ چارے اور دیگر عوامل کی وجہ سے نمایاں طور پر کم ہوتی ہے۔

بریگیڈیئر نعیم نے مزید بتایا کہ ڈپو کا بجٹ وزارت دفاع فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ عرب گھوڑوں کا گروپ خاص طور پر پاکستان کی حکومت اور فوج کی طرف سے آنے والے معززین کو بطور تحفہ پیش کرنے کے لیے رکھا گیا تھا۔

بریگیڈیئر نعیم نے کہا: ’36 جانور مختلف سربراہان مملکت جن میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، بنگلہ دیش، سری لنکا اور کچھ دیگر ممالک شامل ہیں، کو تحفے میں پیش کیے گئے ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ اردن کے بادشاہ، قطر کے حکمران اور سعودی شاہ نے گذشتہ کئی دہائیوں میں پاکستانی حکمرانوں کو بھی یہ گھوڑے تحفے میں دیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شاہ فیصل نے جنرل ضیا الحق کو عربی گھوڑا تحفے میں دیا اور سعودی شاہ نے جنرل پرویز مشرف کو بھی گھوڑا تحفے میں دیا تھا۔ بریگیڈیئر نعیم نے کہا کہ پاکستانی حکمرانوں کو تحفے میں دیے گئے گھوڑوں کو ہمیشہ مونا ڈپو میں ہی رکھا جاتا ہے۔

ماہرین کے مطابق عربی گھوڑوں کی درجہ بندی ’گرم خون والی‘ نسل کے طور پر کی جاتی ہے جو اپنی حساسیت، ذہانت، تیزی سے سیکھنے اور سواروں کے ساتھ زیادہ رابطے صلاحیت کی وجہ سے منفرد مقام رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسی نسل کو گھڑ سواری کے کھیل، ڈریسیج، پولو اور ٹینٹ پیگنگ کے لیے تربیت دی جاتی ہے۔

بریگیڈیئر نعیم نے کہا: ’ہمارے پاس گھوڑوں کو خاص طور پر شو جمپنگ اور والٹنگ کے لیے تربیت دی گئی ہے جو مختلف کاموں کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ مونا کے عربی گھوڑوں میں سے ایک نے چھ بار پاکستان میں بہترین پولو پونی کا انعام جیتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا