ضیغم زیدی: جن کی ایک تصویر نے صدر ایوب اور بھٹو کی راہیں جدا کر دیں

اگر یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جائے کہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے مؤثر فوٹو گرافر کون تھے؟ تو ضیغم زیدی اور ایف ای چوہدری میں مقابلہ پڑے گا۔

فوٹوگرافر ضیغم زیدی، وزیراعظم بینظیر بھٹو کے ساتھ دورہ چین کے موقعے پر (ضیغم رضوی)

تاشقند معاہدہ ہو چکا تھا، صدر ایوب نے واپسی پر آئی ایس پی آر راول پنڈی میں قوم کو اعتماد میں لینے کے لیے پریس کانفرنس کر دی، جس میں بننے والی ایک تصویر نے صدر ایوب اور ان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کی راہیں جدا کر دیں۔

مذکورہ تصویر اگلے دن کے اخبارات کے صفحہ اوّ ل پر چھپی، جس میں صدر ایوب ڈائس پر پریس کانفرنس کر رہے ہیں اور سٹیج پر بیٹھے ذوالفقار علی بھٹو انہیں استفہامیہ انداز میں دیکھتے نظر آتے ہیں۔

اس تصویر کے چھپنے کے بعد صدر ایوب اور ذوالفقار علی بھٹو کی راہیں جدا ہو گئیں۔

اس وقت کے نامور فوٹوگرافر ضیغم زیدی کی بنائی یہ تصویر صدر ایوب اور ذوالفقار علی بھٹو کی ایک ساتھ آخری تصویر ثابت ہوئی۔

اگر ہم یہ معلوم کریں کہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے مؤثر فوٹو گرافر کون تھے؟ تو سید ضیغم زیدی اور ایف ای چوہدری میں مقابلہ پڑے گا۔

دونوں کمال کے فوٹوگرافر تھے، جنہوں نے پاکستان کے تاریخی لمحوں کو کیمرے کی آنکھ میں قید کیا۔

فوٹو گرافی کی ابتدا فوج سے 

ضیغم 1930 میں اترپردیش کے شہر مظفرنگر میں پیدا ہوئے۔ پاکستان بنا تو خاندان کے ساتھ ہجرت کر کے راول پنڈی آ گئے۔

ان کی رفیقہ حیات اور بزرگ صحافی رباب عائشہ کی ایک کتاب ’سدا بہار چہرے‘ حال ہی میں شائع ہوئی، جس میں انہوں نے اپنے شوہر کے حالاتِ زندگی بھی قلم بند کیے ہیں۔

وہ لکھتی ہیں کہ ضیغم پیدائشی فنکار تھے اور پاکستان بننے سے پہلے شوقیہ فوٹوگرافی کیا کرتے تھے۔

جب وہ راول پنڈی آ گئے تو انہیں اپنے خاندان کی کفالت کی ضرورت تھی۔ ضیغم کو فوٹوگرافی کا ہنر آتا تھا، اس لیے فوج کے ایک ادارے میں 50 روپے ماہانہ تنخواہ پر ملازمت مل گئی۔

یہاں انہیں فوجی گاڑیو ں اور ٹرکوں کی تصاویر بنانے کا کام سونپا گیا۔ اس میں بھی وہ کوئی نہ کوئی جمالیاتی پہلو تلاش کر لیا کرتے تھے۔

ان کی کوشش ہوتی کہ تصویر میں صرف ٹرک یا گاڑی کی تصویر نہ بنے بلکہ پس منظر میں کچھ اور چیزیں بھی ہوں، جن کی کمپوزیشن سے تصویر کی الگ شناخت بن سکے۔

1960 میں جب راول پنڈی عارضی دارالحکومت بنا تو روزنامہ جنگ کا اجرا یہاں سے ہوا، جس میں ضیغم کو ملازمت مل گئی۔

اس دوران بھی انہوں نے کئی تاریخی تصاویر بنائیں، جن میں ماسٹر تارا سنگھ  اور بعد میں پنڈت جواہر لال نہرو اور شیخ عبد اللہ کا دورہ پاکستان بھی شامل تھا۔

1965 کی جنگ میں راول پنڈی کے علاقے صادق آباد میں انڈین طیاروں کی بمباری اور کشمیر کے محاذ پر ان کی بنائی ہوئی تصاویر تاریخی اہمیت کی حامل ہیں۔

لاہور میں پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس ہوئی تو اس دوران انہوں نے مختلف ممالک کے سربراہان کی تصاویر بنائیں، جن میں لیبیا کے صدر معمر قذافی، مصر کے صدر انور سادات، یاسر عرفات اور شاہ فیصل شامل تھے۔

انہیں پورٹریٹ بنانے میں ملکہ حاصل تھا۔ زین العابدین، خواجہ ناظم الدین، فیروز خان نون، علامہ عنایت مشرقی، انڈیا کے مشہور اداکار بلراج ساہنی، زبیدہ آغا، جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، ضمیر جعفری، مختار صدیقی، احمد فراز، کرنل محمد خان، برگیڈیئر صدیق سالک، دادا امیر حیدر، گل جی، سلامت علی اور نزاکت علی وغیرہ کے پورٹریٹ انہوں نے بنائے۔

ذوالفقار علی بھٹو کےآفیشل فوٹوگرافر

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی تو ان دنوں ضیغم کا راول پنڈی کے پرل کانٹینینٹل ہوٹل میں سٹوڈیو ہوتا تھا۔

ایک دن انہیں بیگم نصرت بھٹو  کا پیغام ملا کہ وہ آ کر ملیں، جب وہ ملاقات کے لیے گئے تو انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی خواہش ہے کہ آپ ان کے آفیشل فوٹوگرافر کی حیثیت سے کام دیں۔

رباب مزید لکھتی ہیں کہ گھر آ کر جب مجھ سے انہوں نے اس کا تذکرہ کیا تو میں نے انہیں منع کیا کہ ہوٹل میں ان کا اپنا کام خوب چل  رہا ہے۔

سرکاری نوکری آج ہے تو کل نہیں، لیکن وہ نہیں مانے اور کہنے لگے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ کام کرنا ان کے لیے اعزاز کی بات ہے۔

بعد میں وزیر اعظم بھٹو کے ساتھ وہ اندرون اور بیرون ملک سفر پر رہے۔ ہر تقریب میں بھٹو کی آمد اور روانگی کی تصاویر بنانا بھی وہ اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے۔

بھٹو نے جب اپنی انتخابی مہم شروع کی تو ضیغم کی بنائی ہوئی تصاویر بڑے بڑے پوسٹروں پر پورے ملک میں  پھیل گئیں۔

ان کی بنائی ہوئی وہ تصویر تو بڑی مقبول ہوئی جس میں بھٹو صاحب ننگے پاؤں جیل سے باہر آ رہے ہیں اور پھر وہ فوٹو جس میں وہ عوام کے نعروں کا جواب دے رہے ہیں۔

بھٹو کی حکومت جاتے ہی انہیں نوکری سے برخاست کر دیا گیا۔

ہوٹل والا سٹوڈیو بھی ان کی سرکاری مصروفیات کی وجہ سے بند ہو چکا تھا اور وہ مالی پریشانیوں میں گھر گئے۔ بھٹو کی پھانسی پر کئی دن روتے رہے۔

جب بینظیر بھٹو وزیراعظم بنیں تو انہوں نے ضیغم کو پھر اپنے ذاتی فوٹو گرافر کی حیثیت سے ملازمت دے دی۔

وہ بینظیر بھٹو کے ساتھ چین کے دورے پر بھی گئے، لیکن ایک دن وزیراعظم ہاؤس سے واپسی پر ان کا حادثہ ہوا، جس سے ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔

ان کی صحت کی بحالی میں ایک سال لگ گیا، جس کی وجہ سے وہ بینظیر بھٹو کے ساتھ مزید کام نہ کر سکے۔

ابو ظہبی کے شیخ کی نوکری ٹھکرا دی  

رباب لکھتی ہیں کہ ضیغم کو ابو ظہبی کے شیخ نے ذاتی فوٹو گرافر کی حیثیت سے نوکری کی آفر کی لیکن ان کی ماں نے جب کہا کہ ’مجھے کس کے سہارے چھوڑ کر جاؤ گے‘ تو انہوں نے یہ نوکری ٹھکرا دی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بھٹو کی قربت کی وجہ سے بھی انہیں کئی مواقع ملے جہاں وہ مال و دولت کما سکتے تھے مگر وہ ایک سچے اور کھرے آدمی تھے۔ انہیں تمغہ حسن کارکردگی بھی ملا۔

آخری عمر میں وہ بیماری اور لاچارگی کا شکار رہے، مگر لوگ انہیں بھول گئے۔ وہ دوست جو ان کے بغیر سانس تک نہیں لیتے تھے انہوں نے پلٹ کر پوچھا تک نہیں۔

صرف معراج محمد خان ایک بار ان کی بیمار پرسی کے لیے گھر تشریف لائے۔ راجہ انور نے فون پر تعزیت کی اور بینظیر بھٹو نے ایک تعزیتی خط لکھا تھا۔

رباب عائشہ لکھتی ہیں کہ بیوی بچوں کو ترکے میں بہت کچھ ملا کرتا ہے، مگر ہمیں ترکے میں صرف وہ تصاویر ملیں، جو ضیغم کے مرنے سے چند ماہ پہلے پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کی ایک نمائش میں آویزاں کی گئی تھیں اور جنہیں نمائش کے بعد اتروا کر مسرت ناہید امام نے میرے گھر بھجوا دیا تھا۔

’میں سمجھتی ہوں کہ یہ تصاویر نہیں پاکستان کی ایک تاریخ ہے جسے ضیغم زیدی نے مصور کیا تھا۔‘

وہ 76 سال کی عمر میں ستمبر 2006 میں انتقال کر گئے تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ