لاہور کی ’حام‘ آرٹ گیلری میں جمعہ کو ’تو کیا ہے‘ کے عنوان سے ایک منفرد نمائش کا اہتمام کیا گیا۔
اس نمائش میں چھ مصوروں کے 11 فن پارے رکھے گئے تھے جن میں خواجہ سراؤں کی مصوری کی گئی تھی۔
ان فن پاروں میں موجود خواجہ سرا خود بھی اس نمائش میں موجود تھے۔
نمائش میں ایک تھیٹر ڈراما بھی پیش کیا گیا جس میں خواجہ سراؤں کو مختلف روپ جیسے وکیل، ڈاکٹر، پولیس اہلکار اور دیگر کرداروں میں تبدیل ہوتے دکھایا گیا تھا۔
بلو رانی نامی ایک ایک خواجہ سرا نے بھی اس پرفارمنس میں لیا، جن کا کہنا ہے کہ انہیں پرفارم کر کے ’بہت مزہ‘ آیا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بلو رانی کا کہنا تھا کہ ’تو کیا ہے‘ کا تھیم دراصل یہ ہے کہ ایک خواجہ سرا کیا ہے اور اس کی زندگی کیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ پورا پراجیکٹ خواجہ سراؤں کے حوالے سے ہی تھا کہ ایک خواجہ سرا ڈاکٹر بھی بن سکتا ہے اور ایک وکیل بھی بن سکتا ہے۔‘
اس نمائش میں ایک پینٹنگ حسیب راٹھور کی بھی تھی جسے اس نمائش کی کیوریٹر عائشہ رومی نے پینٹ کیا تھا۔
حسیب کا کہنا تھا کہ اس پینٹنگ میں ان کی اب تک کی زندگی کی مشکلات، جد و جہد، اچھی بری سب چیزوں کو ملا کر پیش کیا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس نمائش کی کیوریٹر عائشہ رومی کا کہنا ہے اس شو کو منعقد کرنے میں انہیں ایک سال لگا۔
’پہلی مرتبہ خواجہ سراؤں یا ان کے مسائل کو مصوری کے ذریعے یا فلم کے ذریعے ہی صرف پیش نہیں کیا جا رہا بلکہ انہیں خود موقع دیا جا رہا ہے کہ وہ آئیں اور اپنی داستان خود بتائیں۔‘
عائشہ کے مطابق ’ہم نے تین چیزوں کو شامل کرنے کی کوشش کی ہے کہ جیسے ہم کہہ رہے ہیں ہم رکاوٹ ختم کر رہے ہیں جہاں پر جو پینٹنگ کا کردار ہے وہ خود اپنے دیکھنے والوں کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔‘
’اس کے لیے بہت ضروری تھا کہ ہماری پیش کش ہو اس میں دیکھنے والے، کردار اور جو پراپس پینٹنگ میں استعمال ہوئے اور جو پرفارمنس میں ہوئے وہ سب ایک ہی سٹیج پر ہوں تاکہ کہیں کسی قسم کی کوئی تقسیم نہ ہو۔‘
نمائش میں پیش کیے جانے والی پرفارمنس کی کیوریٹر اور ڈائریکٹر ثنا کا کہنا تھا کہ ’یہ پرفارمنس جینڈر کمیونٹی کی انکلوسیوٹی کے بارے میں ہے۔‘
’ہم لوگ یہ کام کر کے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ صرف دل کھولنے کی ضرورت ہے ہم اس معاشرے کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ جو تمام قسم کی اقلیتوں کے لیے محفوظ ہو، اور ان لوگوں میں وہ تمام صلاحیتیں ہیں جو انہیں وہ بنا سکتی ہے جو یہ بننا چاہتے ہیں بس ضرورت صرف انہیں موقع دینے کی ہے۔‘