بہاریوں کو شناختی کارڈ دینے پر زور، نادرا سے رپورٹ طلب 

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے رکن آغا رفیع اللہ نے کہا کہ جن افراد نے ہمارے ملک کے لیے قربانیاں دیں انہیں سہولیات فراہم نہیں کی جا رہیں۔

ایک خاتون چارسدہ میں تین اگست 2010 کو اپنا شناختی کارڈ دکھا رہی ہے (فائل فوٹو/اے ایف پی)

پاکستان ہجرت کے ذریعے آنے والے باشندوں کو شناختی کارڈ جاری نہ کرنے کے معاملہ پر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے بہاریوں کو شناختی کارڈ دینے پر زور دیتے ہوئے نادرا سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔

چیئرمین حسین احمد دیہڑ کی صدارت میں ہونے والے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں پاکستان ہجرت کر کے آنے والے افراد کے شناختی کارڈ کی اہلیت سے متعلق معاملہ زیر غور آیا۔ 

کمیٹی رکن آغا رفیع اللہ نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جن افراد نے ہمارے ملک کے لیے قربانیاں دیں انہیں سہولیات فراہم نہیں کی جا رہیں۔ ملک کے لیے آنے والے بہاریوں کو شناختی کارڈ نہیں دیے جا رہے اور اگر پہلے سے ملے ہوئے ہیں تو بلاک کیے جا رہے ہیں۔

اس کے جواب میں چیئرمین نادرا اسد گیلانی نے کہا کہ شہریت ثابت کرنے کے لیے کوئی دستاویز ہونا چاہیے۔‘ 

آغا رفیع اللہ نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ کس بنیاد پر شناختی کارڈ بلاک کیے گئے؟ اس وجہ سے متعدد بچوں کو کالج میں داخلہ نہیں مل پا رہا اور نہ کئی افراد کو نوکریاں مل رہی ہیں۔ ان کے والدین کے شناختی کارڈ بنے ہوئے ہیں لیکن بچوں کو شناختی کارڈ نہیں دیے جا رہے۔ 

چیئرمین نادرا نے کہا کہ سندھی، بہاری یا کسی بھی صوبے سے تعلق رکھنے والے فرد کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ہو رہا۔ ’کئی مرتبہ شناختی کارڈ بنوانے کے لیے دستاویزات مانگتے ہیں۔ ہم بعض افراد سے سال 1971 کے دستاویز مانگتے ہیں، انہیں کہتے ہیں کہ پاکستانی ہونے کا کوئی تو ثبوت دیں۔‘

اس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا، ’انڈیا سے یہ افراد لٹ کر اتنی مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد یہاں آئے۔‘ 

چیئرمین نادرا نے کہا، ’ان کے ادارے کے ہاتھ میں اس طرح کارڈ جاری کرنا نہیں ہے۔ اس دوران آغا رفیع اللہ نے کہا، ’میں نے یہ نہیں کہا کہ افغان باشندوں کے کارڈ بنائیں لیکن ان بہاریوں کے شناختی کارڈ کیوں بلاک کیے گئے؟‘

چیئرمین کمیٹی نے کہا، ’ہم نے بہاریوں کے بارے میں تو کبھی نہیں سنا کہ وہ دہشت گردی میں ملوث ہیں۔‘

انہوں نے ماضی میں پاکستان ہجرت کرنے والوں میں سے کسی ایک کی روداد سناتے ہوئے کہا، ’وطن آتے ہوئے دادی نے اپنے پیٹ سے دستاویزات باندھی تھیں، انہیں دریا میں پھینک دیا گیا تو وہ دستاویزات بھی پانی میں بہہ گئیں۔ اب وہ دستاویزات کہاں سے لائیں؟‘

آغا رفیع اللہ نے کہا ان کا جرم یہ ہے کہ وہ پاکستان کے لیے آئے۔ ’ماضی میں کہا گیا کہ رکن قومی اسمبلی نادرا جا کر اپنے انگوٹھے کا نشان لگائیں اور جن افراد کو آپ جانتے ہیں ان کی تصدیق کریں، جس کے بعد ہم نے جا کر تصدیق بھی کی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 چیئرمین نادرا نے کہا پارلیمان نے اس سے متعلق ایک کمیٹی تجویز کی جو اس کی تجویز پر ختم بھی کر دی گئی۔ 

چیئرمین کمیٹی نے کہا وہ کمیٹی ختم نہیں ہوئی تھی۔ اس مسئلے کا کوئی حل نکالا جائے اور بہاریوں کو سہولیات دی جانی چاہیے۔ چیئرمین نادرا نے کہا اگر کوئی ویریفکیشن ایجنسی کہہ دے کہ یہ پاکستانی ہے تو ہم شناختی کارڈ دے دیتے ہیں، اور جن کیسوں پر شک ہو انہیں ایجنسی کو دیتے ہیں۔ 

آغا رفیع اللہ نے سوال کیا، ’ایجنسی کے کہنے پر آپ شناختی کارڈ دیں گے عوامی نمائندے کے کہنے پر نہیں؟ جو بیرون ملک سے آئے ہیں اگر ان کے دستاویز نہیں ہیں تو ان کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟‘ چیئرمین کمیٹی نے استفسار کیا کہ نادرا اس حوالے سے کیا کر سکتا ہے؟

بعد ازاں کمیٹی نے اس معاملے پر نادرا سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے شہادتیں کارڈ نہ دینے یا بلاک کرنے پر بریفنگ طلب کر لی۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا اگلے اجلاس میں ہدایت جاری کریں گے کہ جن بہاریوں کے شناختی کارڈ بلاک کیے گئے انہیں بحال کیا جائے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان