پاکستان، افغانستان میں پولیو پر قابو ممکن نظر آرہا ہے: عالمی پروگرام

اس سال اب تک پاکستان میں بنوں میں ایک بچہ پولیو سے متاثر ہوا جبکہ افغانستان اس سال مئی تک تین کیس سامنے آئے ہیں۔ حکام کے مطابق افغانستان میں ماضی میں انہیں تمام ملک میں رسائی حاصل نہیں تھی لیکن اب ہوگئی ہے جس سے کامیابی کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔

کراچی میں 14 مارچ، 2023 کو ریلوے سٹیشن پر ہیلتھ ورکر ایک بچے کو پولیو کے قطرے پلا رہی ہیں (اے ایف پی)

دنیا میں پولیو جیسی خطرناک بیماری کے خاتمے کے لیے سرگرم گلوبل پولیو ایریڈیکیشن انیشیوٹیو کے بورڈ کے سربراہ ڈاکٹر کرسٹوفر ایلیس نے کہا ہے کہ انہیں امید ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان اس جرثومہ کی نقل و حرکت کم کر دی گئی ہے۔

ایک اعلی سطحی وفد کی قیادت میں پاکستان کے مختلف شہروں کے دوروں اور حکام سے ملاقاتوں کے بعد اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ دورہ ایک مثبت نوٹ پر ختم کر رہے ہیں کہ دنیا کے آخری دو ممالک جن میں پاکستان اور افغانستان شامل ہے یہاں پر اس بیماری کے خاتمے کے لیے ’زبردست پیش رفت‘ ہوئی ہے۔

اس سال اب تک پاکستان میں بنوں میں ایک بچہ پولیو سے متاثر ہوا جبکہ افغانستان  میں اس سال مئی تک تین کیس سامنے آئے ہیں۔ حکام کے مطابق افغانستان میں ماضی میں انہیں تمام ملک میں رسائی حاصل نہیں تھی لیکن اب ہوگئی ہے جس سے کامیابی کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔

حکام کے مطابق پاکستان میں خیبرپختونخوا کے سات اضلاع بنوں، لکی مروت، ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، شمالی وزیرستان اور اپر اور لوئر دیر میں مشکلات درپیش ہیں۔ افغانستان میں پاکستانی سرحد کے ساتھ واقع مشرقی ننگرہار اور کنڑ ایسے صوبے ہیں جہاں یہ جرثومہ موجود ہے۔  

’ہم اس وقت ایپیڈیمکلی دونوں ممالک میں بہترین صورت حال دیکھ رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اس پر قابو پاسکتے ہیں۔‘

ڈاکٹر کرسٹوفر ایلیس نے پاکستان میں اس اپاہج کر دینے والی بیماری کے خلاف پائے جانے والے سیاسی اتفاق پر مطمئن ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں کہ آیا پاکستان میں اس سال متوقع عام انتخابات سے اس بیماری کے خلاف مہم متاثر تو نہیں ہوگی تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے ایسا نہیں ہوگا اور اس سال کے اختتام تک اس بیماری پر قابو پا لیا جائے گا۔

پولیو وائرس پاکستان کے لاہور، پشاور، ہنگو، ڈیر اسماعیل خان، لوئر وزیرستان اور کراچی میں گیارہ نمونوں میں جون 2023 تک پایا گیا ہے۔ حکام کے مطابق ان گیارہ میں سے سات مثبت نمونوں میں سے ساتھ افغانستان میں پایا جانے والا وائرس ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزیرستان کے محسود قبائل کے ’منظم انکار‘ کی وجہ سے حکام نے بتایا کہ گذشتہ ایک سال میں پولیو کے قطرے نہیں پلائے جاسکے ہیں۔ اپریل 2022 میں تاہم شمالی وزیرستان میں ایک پولیو کیس سامنے آیا تھا۔

ڈاکٹر کرسٹوفر ایلیس بل گیٹس اینڈ ملینڈا فاونڈیشن کے گوبل ڈویلپمنٹ ڈویژن کے صدر ہیں۔ نگرانی کا بورڈ پانچ اداروں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، روٹری، سی ڈی سی، یونیسف، بی ایم جی ایف اور گاوی پر مشتمل ہے۔

ان کے ہمراہ صحافیوں سے ملاقات میں ڈبلیو ایچ او کے ڈاکٹر احمد المندہاری اور ڈاکٹر حامد جعفری، یونیسف کے پاکستان میں نائب نمائندے ڈاکٹر انوسا کبور، پاکستان کے نیشنل ایمرجنسی آپریشن کے کوارڈینیٹر ڈاکٹر شہزاد بیگ بھی موجود تھے۔

پاکستان میں پولیو کے خاتمے کا پروگرام گذشتہ 25 سالوں سے بچوں کو معذوری کا شکار کرنے والے پولیو وائرس کے خاتمے کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔ اس پروگرام کا ہراول دستہ 339,521 پولیو ورکرز ہیں۔ انہیں ان خدمات کے نتیجے میں دی جانے والی رقم اور سہولتوں کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر شہزاد بیگ نے کہا کہ حکومت پاکستان اپنے وسائل سے انہیں ہر ممکن سہولت فراہم کرتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان ویکسی نیشن مہم کے لیے ویکسین بھی خود خریدتا ہے۔

پولیو اورسائٹ بورڈ کا یہ دو سال میں پاکستان کا چوتھا دورہ ہے۔ اس سے قبل مئی میں بھی پہلے کیس کے سامنے آنے کے فورا بعد وفد پاکستان آیا تھا۔

ان اعلی ماہرین کا کہنا تھا کہ ایک سال اگر پاکستان میں پولیو کے واقعات صفر بھی ہو جاییں تو انہیں تین سال تک ویکسی نیشن مہم چلانی پڑیں گی۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان