شواز بلوچ: سابق پائلٹ جنہوں نے بینائی سے محرومی کو طاقت بنا لیا

پاکستان نیوی کے سابق پائلٹ شواز بلوچ آنکھوں کے ایک آپریشن کے دوران قوت بینائی سے محروم ہوئے تو اندھیروں سے روشنی کی طرف ان کا ایک انوکھا سفر شروع ہوا اور وہ انسانی حقوق کے کارکن اور موٹیویشنل سپیکر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔

اس دنیا میں بہت سے ایسے لوگ ہیں، جنہوں نے جسمانی معذوری کو اپنے راستے کی رکاوٹ نہیں بننے دیا اور ان ہی میں سے ایک پاکستان نیوی کے سابق پائلٹ لیفٹینٹ کمانڈر (ر) شواز بلوچ بھی ہیں، جو کسی طرح بھی کسی ہیرو سے کم نہیں۔

شواز بلوچ پاکستان نیوی میں پائلٹ تھے لیکن ایک بیماری کی وجہ سے وہ قوت بینائی سے محروم ہوگئے، لیکن انہوں نے بینائی سے محرومی کو اپنی کمزوری بنانے کے بجائے طاقت بنا دیا اور اب وہ ایسے کارنامے انجام دے رہے ہیں، جو شاید ایک عام انسان کے لیے کرنا کافی مشکل ہو سکتے ہیں۔ 

وہ نہ صرف انسانی اور بالخصوص خصوصی افراد کے حقوق کے لیے کام کرتے ہیں، بلکہ ایک موٹیویشنل سپیکر ہونے کے علاوہ امن کے سفیر، ایکٹوسٹ اور لائف کوچ بھی ہیں۔

شواز بلوچ حال ہی میں لندن میں تھے، جہاں انہوں نے کئی شخصیات سے ملاقاتیں اور تقریبات میں شرکت کی۔

اس موقعے پر انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں شواز بلوچ نے بتایا کہ اندھیرا، بلندی اور پانی ان کے بچپن کے خوف تھے لیکن انہوں نے ان سب پر قابو پایا۔

قوت بینائی سے محرومی کا قصہ سناتے ہوئے انہوں نے کہا: ’میں نوجوان تھا۔ ایک دن میں اسی طرح نارمل فلائنگ کر رہا تھا کہ نظر دھندلا گئی۔ میں نے اسے نظر کا مسئلہ سمجھا اور ڈاکٹر سے رجوع کرنے پر معلوم ہوا کہ غدودوں میں مسئلہ ہے جنہیں آپریشن کے ذریعے نکالنے کا مشورہ دیا گیا۔‘

تاہم انہوں نے بتایا کہ آنکھوں کے غدود نکالنے کے لیے کیے گئے آپریشن کے دوران کوئی چیز غلط ہو گئی اور وہ ہمیشہ کے لیے بینائی سے محروم ہوگئے۔

بقول شواز بلوچ: ’وہ میری زندگی کا سب سے مشکل لمحہ تھا۔ میں اس کمزور اور مشکل ترین لمحے میں کئی بار جذباتی ہوا اور میں نے اللہ سے بھی شکایت کرنا شروع کر دی، لیکن میں نے خود کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ شاید اللہ نے میرا اندھیرے کا خوف دور کرنے کی خاطر ایسا کیا ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ آپریشن کے بعد ’میرے والد اور والدہ کمرے میں داخل ہوئے۔ والد صاحب کو بتایا کہ مجھے نظر نہیں آ رہا، والد صاحب نے بڑا حوصلہ دیا، جب میری والدہ نے دیکھا کہ میں تھوڑی ہمت میں ہوں، تو انہوں نے میری ہمت کو دیکھ کر ہمت پکڑی اور تین الفاظ کہے: اللہ سب ٹھیک کر دے گا!

’ان الفاظ نے جیسے میرے اندر ہمت کا پہاڑ کھڑا کر دیا۔ مجھے بڑا حوصلہ دیا۔ میں سب کچھ بھول گیا اور مستقبل کے بارے میں سوچنا شروع ہو گیا۔ دل میں ایک تہیہ کر لیا کہ اب چاہے جو کچھ بھی ہو جائے مجھے اپنے اس امتحان میں فیل نہیں ہونا، ورنہ میں دنیا کو کیا منہ دکھاؤں گا۔ میں دنیا کو کبھی بھی یہ محسوس نہیں کرواؤں گا کہ میں ڈر گیا ہوں یا ہمت ہار گیا ہوں۔‘

اور پھر شوز بلوچ کا اندھیروں سے روشنی کی طرف کا یہ انوکھا سفر شروع ہوا، جس نے انہیں یہ بھی بھلا دیا کہ ان کے جسم میں کسی حِس انسانی کی کمی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے اسی حالت میں تعلیم کو اپنا کیریئر بنایا اور گولڈ میڈل کے ساتھ ایم فِل کیا اور صرف ایم فِل ہی نہیں بلکہ کئی ملکی اور غیر ملکی کورسز اور سرٹیفیکیشنز بھی حاصل کیں۔

بقول شواز: ’مجھے صدارتی ایوارڈ ملا، چیف آف نیول سٹاف ایوارڈ ملا، میں ٹیڈ ایکس سپیکر بھی بنا، ٹوسٹ ماسٹرز انٹرنیشنل کی بھی چیمپیئن شپ جیتی۔ میں آگے بڑھتا رہا۔۔۔ مجھے میرے کلاس فیلوز نے کہا کہ آپ کی سٹوری بڑی متاثر کن ہے، آپ کو موٹیویشنل سائیڈ پر آنا چاہیے۔‘ جس کے بعد انہوں نے نوجوانوں کی زندگی میں تبدیلی لانے کا کام شروع کردیا۔

شواز کہتے ہیں کہ اب بھی کچھ خواب ادھورے ہیں، جنہیں وہ مکمل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جن میں ایک فلم بنانا اور اپنی سوانح عمری کتابی شکل میں مکمل کرنا وغیرہ شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان کی ذاتی زندگی پر ایک فلم بنانے کا منصوبہ بھی پائپ لائن میں ہے۔ ’میں چاہتا ہوں، وہ فلم بنے اور آسکر کے لیے جائے تاکہ پاکستان کا ایک سافٹ امیج دنیا میں جائے کہ پاکستان میں بھی ایسے لوگ ہیں جو انسانی حقوق، معذوروں کے حقوق اور امن کے سفیر ہیں اور جو مثبت سوچ کے ساتھ انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی