پشاور: ’بینائی سے محروم بچیوں کے لیے پرائمری سے آگے سکول نہیں‘

پرنسپل برائے بلائنڈ سکول نے کہا کہ اگر حکومت نے ان کے سکول کو لڑکیوں کے لیے میٹرک تک اپ گریڈ کر لیا تو کئی طالبات آگے پڑھ سکیں گی۔

بینائی سے محروم نائلہ بچپن سے کلاس میں پہلی پوزیشن لیتی آرہی ہیں۔ وہ پشاور میں قوت بینائی سے محروم بچوں کے سکول میں پانچویں جماعت کی طالبہ ہیں، لیکن خدشہ ہے وہ مزید آگے نہیں پڑھ سکیں گی۔

ان خدشات کا اظہار یکم جون کو طہماس سٹیڈیم میں خصوصی بچوں کے لیے منعقد تیسویں اولمپکس کے موقع پر پشاور کے واحد پرائمری سکول برائے خصوصی بچوں کی پرنسپل نے کیا۔

پرنسپل نادیہ شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ خیبرپختونخوا میں بینائی سے محروم طالبات کے لیے ایک بھی میٹرک تک سکول نہیں ہے۔

’پورے خیبر پختونخوا میں بینائی سے محروم طالبات کے لیے صرف ایک پرائمری سکول ہے۔ وہ بھی پشاور میں ہے۔ دیہاتوں کی بینائی سے محروم بچیاں پرائمری تک نہیں پڑھ پاتیں اور جو پشاور میں ہیں ان کا سلسلہ پرائمری سے آگے نہیں بڑھ پاتا۔‘

نادیہ شاہ نے کہا کہ یہ سہولت صرف بینائی سے محروم لڑکیوں کے لیے دستیاب نہیں ہے۔

لہذا اگر وہ اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہیں تو انہیں پرائمری تک پڑھنے کے لیے دیہات سے پشاور اور میٹرک تک پڑھنے کے لیے پشاور سے اٹک، راولپنڈی یا پھر لاہور جانا پڑتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس کے لیے والدین راضی نہیں ہوتے۔ اب جیسا کہ نائلہ ہے۔ وہ ہماری سکول کی ٹاپر ہیں۔ وہ خود اور ہم اساتذہ بھی چاہتے ہیں کہ وہ آگے پڑھیں۔ لیکن نائلہ کے والد کسی طور بچی کو دور بھیجنے پر قائل نہیں ہو رہے۔‘

پرنسپل برائے بلائنڈ سکول نے کہا کہ اگر حکومت نے ان کے سکول کو لڑکیوں کے لیے میٹرک تک اپ گریڈ کر لیا تو کئی طالبات آگے پڑھ سکیں گی۔

نائلہ نے بھی اس موقع پر اپنی خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پڑھ لکھ کر استانی بننا چاہتی ہیں، تاہم ان کے والد انہیں پشاور سے دور بھیجنے پر راضی نہیں ہو رہے۔

’ابو کہتے ہیں، گھر بیٹھ جاؤ۔ اور قرآن کی حفظ شروع کرو۔ لیکن مجھے آگے پڑھنا ہے۔‘

نائلہ کی پرنسپل نے کہا کہ اساتذہ نے فیصلہ کیا کہ اگر نائلہ کو اجازت نہ ملی تو وہ انہیں ٹیوشن پڑھا کر میٹرک تک تعلیم دلوائیں گے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ نائلہ کی ایک اور بینائی سے محروم بہن بھی پانچویں جماعت میں پہنچنے کو ہیں، اور کئی دیگر طالبات بھی ہیں، جو کہ آگے پڑھنے سے محروم رہ جائیں گی۔

بینائی سے محروم سکول کے اساتذہ کا موقف ہے کہ وہ کئی سالوں سے اس مسئلے کے حل کے لیے کوشاں ہیں، اور مختلف حکومتوں سے اس پر بات کی ہے، تاہم کئی دیگر مسئلوں کی طرح یہ بھی جوں کا توں ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس