مری کا ایسا ٹریک جہاں ’لوگ جانے سے کتراتے ہیں‘

اگر اس ٹریک کے پس منظر میں جائیں تو یہ پاکستان اور انڈیا کے قیام سے قبل کالونیل دور کے ایک دلچسپ سفر پر لے جاتا ہے۔

پہاڑوں کے سفر کا شوق تقریباً ہر انسان کی فطرت میں ہوتا ہے اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پہاڑی راستے اور ان پر ہائیکنگ ایک بے مثال تجربہ ہے۔

پاکستان میں ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں واقع مری کے اطراف میں بھی مختلف ہائیکنگ ٹریکس ہیں جو لوگوں کو تفریح کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

ان ہی میں سے ایک ڈیری فارم ہائیکنگ ٹریک ہے جو پگڈنڈی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

یہ ٹریک گھنے جنگل کی اوٹ میں پوشیدہ قدرت کا ایک عظیم شاہکار ہے لیکن یہاں جانے سے لوگ کتراتے ہیں۔ اس علاقے میں اس ٹریک سے منسلک کئی کہانیاں اور قصے سننے کو ملیں گے۔ 

اگر اس ٹریک کے پس منظر میں جائیں تو یہ پاکستان اور انڈیا کے قیام سے قبل کالونیل دور کے ایک دلچسپ سفر پر لے جاتا ہے۔

جھیکا گلی سے تقریباً پانچ منٹ اور کلڈنہ سے تقریباً 10 منٹ کے فاصلے پر واقع یہ ٹریک ملٹری ڈیری فارم سے کچھ فاصلے پر شروع ہوتا ہے اور کشمیر پوائنٹ پر جا کر ختم ہوتا ہے۔

مری کے رہائشی محمد نصیر عباسی نے اس ٹریک کے حوالے سے بتایا کہ ’پہلے اس کے آگے پیچھے کچھ بھی نہیں تھا۔ 60 کی دہائی میں جہاں یہ ٹریک ختم ہوتا ہے، وہاں کشمیر پوائنٹ کے قریب ریلوے ریسٹ ہاؤس بنا اور جو باقی گھر ہیں وہ اس کے بعد میں تعمیر ہوئے۔‘

بقول محمد نصیر ’1968 میں ایوب خان کی حکومت کے دوران جب مارشل لا لگا تھا تو اس وقت اس ٹریک کے آگے ریلوے ریسٹ ہاؤس بنا، جس کی منصوبہ بندی 60 کی دہائی میں ہی ہوئی تھی۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور میں اس ٹریک کو پکا کیا گیا۔ ’مری میں دو تین دفعہ سنو ریس (میراتھن ریس) منعقد ہوئی، جس کے لیے یہی ٹریک استعمال ہوا۔‘

 تاریخی پس منظر سے قطع نظر یہ ٹریک مقامی لوگوں اور سیاحوں کی توجہ کا مرکز نہیں بن سکا ہے اور لوگ یہاں جانے سے اجتناب کرتے ہیں۔

مقامی شہری محمد وصی اس ٹریک پر اکثر ہائیکنگ کے لیے جاتے ہیں۔ وصی کے مطابق یہ ٹریک زیادہ لوگوں کی توجہ کا مرکز اس لیے نہیں بن سکا کیونکہ مقامی لوگ اس ٹریک پر جانے سے اجتناب کرتے ہیں اور سیاح اس کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔

انہوں نے بتایا: ’یہاں وائلڈ لائف کی جانب سے تیندوے چھوڑے گئے ہیں، جس کی وجہ سے وہ یہاں آنے سے اجتناب کرتے ہیں۔‘

2004 میں اس ٹریک پر تیندوا پایا گیا تھا، جیسا کہ ٹریک پر موجود معلوماتی بورڈ پر درج ہے۔

وائلڈ لائف انسپکٹرسکندر ایاز عباسی نے بتایا کہ مری، کوٹلی ستیاں اور کہوٹہ کے جنگلات میں ایک سے زائد تیندوے پائے جاتے ہیں۔ اکثر اوقات لوگوں کی شکایات بھی انہیں موصول ہوئی ہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے مطابق ’کلڈنہ روڈ اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں  لوگوں نے اکثر تیندوے کو دیکھا ہے اور لوگوں کے جانوروں پہ حملے کی شکایات بھی موصول ہوتی ہیں۔‘

پچھلے کچھ سالوں میں ٹریک کے آس پاس کے علاقوں میں تیندوے کے حملے کے کچھ واقعات بھی پیش آئے ہیں، جس کی وجہ سے مقامی لوگ خوف کا شکار ہیں۔

راویز عباسی جو پچھلے تین سال سے محکمہ جنگلات  کے داروغہ ہیں ان  کے مطابق آبادی بڑھنے کی وجہ سے جنگلی جانور آبادی کے قریب ہو گئے ہیں۔ گذشتہ تین سالوں میں تقریباً چار ایسے واقعات پیش آئے ہیں جن میں تیندوے نے لوگوں پہ حملہ کیا ہے۔ ان حملوں میں انسانی جان کا نقصان تو نہیں ہوا لیکن لوگ ڈر کا شکار ہو گئے ہیں۔

انہوں نے بتایا: ’دراصل تیندوے کے کچھ لوگوں کے مویشیوں پہ حملے کے واقعات  پیش آنے کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں اس لیے بھی ڈر بیٹھ گیا ہے۔ پچھلے دو سالوں میں کافی ایسے واقعات پیش آئے ہیں۔‘

وصی کے مطابق: ’دوسری وجہ ٹریک کے آس پاس کے علاقوں میں لوٹ مار کے واقعات ہیں، جس کی وجہ سے لوگ زیادہ محتاط ہو گئے ہیں۔‘

راویز عباسی نے بتایا کہ ٹریک کا راستہ چونکہ گھنے جنگل سے ہو کر جاتا ہے اس لیے ایسے واقعات پیش آنے کا خطرہ ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا: ’ لوگوں کو چاہیے کہ وہ صبح و شام کو ٹریک پہ جانے سے گریز کریں اور  ٹریک کے راستے پہ رہیں اور اکیلے ہائیکنگ پر نہ جائیں۔‘

وصی نے بتایا: ’میں اس ہائیکنگ ٹریک پر اکثر آتا جاتا رہتا ہوں اور مقامی لوگوں کی طرح میں بھی خود کو غیر محفوظ محسوس کرتا ہوں ‏لیکن مجھے ہائیکنگ کا بہت شوق ہے، اس لیے میں ایسے چھوٹے موٹے ڈر کو خاطر میں نہیں لاتا۔‘

‏وصی کے مطابق انہوں نے اور بھی بہت سے ٹریکس پر ہائیکنگ کی ہے اور وہاں کے انتظامات کافی اچھے ہیں اور سکیورٹی کے کوئی معاملات نہیں ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا