انڈین حکومت کا غداری کے ’فرسودہ‘ قانون کو منسوخ کرنے کا اعلان

قانونی ماہر چترنشول سنہا نے کہا کہ حکومت کی نئی شق سے ’برطانوی دور کے غداری کے قانون سے چھٹکارا حاصل نہیں ہو گا بلکہ (حکومت) نے اس کو دوبارہ ترتیب دیا ہے۔‘

نئی دہلی میں قائم انڈین سپریم کورٹ کی عمارت کی 9 جولائی 2018 کو لی گئی تصویر (اے ایف پی / سجاد حسین)

انڈیا میں حکومت نے اعلان کیا ہے کہ برطانوی دور کا فرسودہ غداری کا قانون مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔

اگرچہ حکومت نے اس فیصلے کو فوجداری نظام انصاف میں ایک جامع اصلاحات قرار دیا ہے لیکن ماہرین نے اس پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے پیچیدگیاں بڑھ سکتی ہیں اور ہزاروں مقدمات پر اس فیصلے کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

جمعے کو پارلیمنٹ کے ایوان زیریں لوک سبھا سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے موجودہ ضابطہ فوجداری کوڈ یا انڈین پینل کوڈ (آئی پی سی) کو تبدیل کرنے کے لیے بنائے گئے تین مجوزہ بلز میں سے ایک سے غداری کے جرم کو مکمل طور پر منسوخ کرنے کا اعلان کیا۔

1860 میں انگریز حکومت کی جانب سے متعارف کرائے گئے آئی پی سی نے 160 سال سے زیادہ عرصے سے متحد ہندوستان اور موجودہ انڈیا کے فوجداری نظام انصاف کی بنیاد کے طور پر کام کیا ہے۔

اس کے باوجود بھی قانونی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ موجودہ ہندو قوم پرست حکومت ایک ایسا نیا بل تجویز کر رہی ہے جس سے ’انڈیا کی خودمختاری یا اتحاد اور سالمیت‘ کو خطرہ قرار دے کر کسی بھی شہری کے اقدام کو جرم قرار دیا جا سکے گا۔

نئے مجوزہ بل کے تحت کوئی بھی شخص جو ’علیحدگی ہسندی یا مسلح بغاوت یا تخریبی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے یا علیحدگی پسند سرگرمیوں کے جذبات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے یا انڈیا کی خودمختاری یا اتحاد اور سالمیت کو خطرے میں ڈالتا ہے یا ایسی کسی حرکت میں ملوث یا اس کا ارتکاب کرتا ہے‘ تو اسے عمر قید یا سات سال تک قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ملک میں کسی بھی قسم کی اختلاف رائے کو ختم کرنے کے لیے کئی دہائیوں سے حکومتوں کی جانب سے بغاوت کے اس تاریخی قانون کا غلط استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

قانونی ماہر چترنشول سنہا نے کہا کہ حکومت کی نئی شق سے ’برطانوی دور کے غداری کے قانون سے چھٹکارا حاصل نہیں ہو گا بلکہ (حکومت) نے اس کو دوبارہ ترتیب دیا ہے۔‘

سنہا نے ایسوسی ایٹ پریس کو بتایا کہ ’یہ صرف نام کی تبدیلی ہے۔ بنیادی طور پر اس میں کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔‘

امت شاہ نے جو تین بل پیش کیے ان کو بھارتی شہری تحفظ سنہتا بل، 2023، بھارتیہ نیا سنیتا بل، 2023 اور بھارتیہ سکشوا بل 2023 کہا جاتا ہے۔

ان بلز کا مقصد موجودہ فریم ورک یعنی انڈین پینل کوڈ 1860، کریمنل پروسیجر کوڈ 1898 اور انڈین ایویڈینس ایکٹ 1872 کو بالترتیب تبدیل کرنا ہے۔

پارلیمان کی قائمہ کمیٹی سے کہا گیا ہے کہ وہ تینوں مجوزہ بلوں کا جائزہ لے۔

قانونی تجزیہ کاروں نے ان خدشات کا اظہار کیا کہ اگر مقننہ کی طرف سے منظوری دی گئی تو یہ بل رکاوٹیں اور قانونی نظام میں پیچیدگیاں پیدا کر سکتے ہیں۔ ماہرین نے یہ بھی نشاندہی کی کہ عدالتوں میں ہزاروں زیر سماعت مقدمات پر متعدد طریقہ کار کے اثرات بھی مرتب ہوں گے۔

امت شاہ نے انڈیا میں 19 ویں صدی کے فرسودہ فوجداری قوانین کو ’غلامی‘ کی علامت قرار دیا جو برطانوی نوآبادیاتی حکومت کے تحت ہندوستان کی تاریخ کا حصہ رہے ہیں۔

وزیر داخلہ نے ہجوم کے ہاتھوں تشدد کے واقعات میں موت کی سزا متعارف کرانے کے وفاقی حکومت کے ارادے کا بھی انکشاف کیا۔

پرانے قوانین کو تبدیل کرنے کے لیے تین بلز میں سے ایک کو متعارف کرواتے ہوئے امت شاہ نے انڈیا کے فوجداری انصاف کے نظام میں لاگو ہونے والی 313 تبدیلیوں پر زور دیا۔

ان کے بقول: ’وہ قوانین جو منسوخ کیے جائیں گے، ان کا محور برطانوی انتظامیہ کو تحفظ اور مضبوط کرنا تھا۔ اصل مقصد سزا دینا تھا نہ کہ انصاف دینا۔ نئے تین قوانین انڈین شہریوں کے حقوق کے تحفظ کریں گے۔‘

نئے مجوزہ بلز کے تحت گینگ ریپ کی سزا 20 سال سے لے کر عمر قید تک ہوسکتی ہے جب کہ نئے بلوں میں سزائے موت کے آپشن کو برقرار رکھا گیا ہے۔

تاہم اپوزیشن اور حکومت کے ناقدین نے نریندر مودی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے نئے بلز کو مبہم قرار دیا اور کہا کہ انہیں عوامی بحث یا مشاورت کے بغیر متعارف کرایا جا رہا ہے۔

ایک نقاد نے ایکس (ٹوئٹر) پر لکھا کہ حکومت نے نئے مجوزہ بل میں ’آزاد ہندوستان میں قوم پرستی کے تڑکے ساتھ بغاوت کے قانون کو دوبارہ پیکج اور ری برانڈ کیا ہے۔

معروف وکیل اور سماجی کارکن پرشانت بھوشن نے ایکس پر لکھا: ’زبردست! تین انتہائی اہم قوانین جو ہم سب پر اثر انداز ہوں گے، اس سیشن کے آخر میں بغیر کسی انکشاف یا بحث کے متعارف کرائے گئے ہیں۔ بغاوت کا نوآبادیاتی بھیڑیا بھیڑ کے لبادے میں واپس لایا گیا۔ یہ ہے مودی کے نئے انڈیا کی نئی جمہوریت۔‘

ممتاز وکیل اور سیاست دان کپل سبل نے گذشتہ سال سپریم کورٹ کو مطلع کیا تھا کہ تقریباً 13 ہزار افراد انڈیا کے موجودہ بغاوت کے قانون کے تحت الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔

انڈیا کے نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے مطابق 2015 سے 2020 تک 548 افراد پر غداری کا الزام لگایا گیا جب کہ صرف ایک درجن کو سزا کا سامنا کرنا پڑا۔

انڈیا کے فرسودہ بغاوت کے قانون کے تحت متعدد علما، ادیبوں اور سماجی کارکنوں کو کسی بھی قسم کی اختلاف رائے کا اظہار کرنے پر حراست میں لیا گیا ہے۔

ملک کی سپریم کورٹ نے گذشتہ سال مئی میں حکومت سے کہا تھا کہ وہ قانون کی دفعات پر نظر ثانی کرے اور ریاست پر زور دیا کہ وہ قانون کی مذکورہ شق کے تحت کسی بھی قسم کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹس (ایف آئی آر) درج کرنے سے گریز کرے۔

مودی حکومت کے وزیر قانون کرن رجیجو نے اس وقت کہا تھا کہ ’عدالت کو حکومت اور مقننہ کا احترام کرنا چاہیے، اسی طرح حکومت کو بھی عدالت کا احترام کرنا چاہیے۔ ہمارے پاس واضح حد بندی ہے۔‘

رواں سال جون میں لا کمیشن آف انڈیا نے غداری کے قانون کو برقرار رکھنے کی وکالت کی جس نے حوالہ دیا کہ اگر ان دفعات کو منسوخ کیا جاتا ہے تو قومی سلامتی اور اتحاد کے لیے ممکنہ شدید اثرات کے خدشات پیدا ہو جائیں گے۔

کمیشن نے تجویز پیش کی تھی کہ سیکشن 124A کے تحت غداری کے قانون میں ترمیم کی جائے تاکہ اس شق کی تشریح، تفہیم اور اس کے استعمال کے لیے مزید وضاحت کی جا سکے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا