حملوں کی کوریج: ’جب طالبان نے پکڑا زندگی کا آخری دن لگا‘

ملک بھر کے صحافی شدت پسندی کے واقعات کو رپورٹ کرنے کے بعد نفسیاتی تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔

17 دسمبر 2014، پشاور کے آرمی پبلک سکول پر عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد ایک صحافی جائے وقوعہ پر کوریج کے لیے موجود(اے ایف پی/فاروق نعیم)

بات خبر یا سٹوری کی نہیں ہاں مگرسوال یہ ہے کہ بریکنگ نیوز کی دوڑ میں صحافیوں کی زندگیاں کیوں خطرے میں ڈالی جاتیں ہیں۔

پاکستان کا خوبصورت علاقہ سوات 2007 سے 2012 تک حالت جنگ میں رہا اس دوران  سوات کے صحافی اپنے تحفظ اور خاندان کی زندگیوں کے تحفظ کے لیے ہر وقت پریشان رہے۔

سوات سے تعلق رکھنے والے صحافی رفیع اللہ کا کہنا ہے کہ ان کی یا تو خوش قسمتی یا بد قسمتی  کہہ سکتے ہیں کہ سوات میں جب طالبان نے قبضہ کیا تو اس دوران انہوں نے صحافت کا آغاز کیا۔ ۔

2010 میں جب آج نیوز سے ٹیلی ویژن کے لیے رپورٹنگ کا آغاز کیا توان کے بقول اپنی جان کے تحفظ  کا تصور تو تھا ہی نہیں بس اللہ کے رحم وکرم پر دھماکوں کی کوریج کے لیے جاتے تھے۔

صحافی رفیع اللہ نے بتایا: ’جب آج ٹی وی جوائن کیا تو میرے ساتھ پہلا خوف ناک واقعہ  سوات میں  لوگوں کے گھروں پر شینلگ کے بعد وہاں کی صورت حال کو کور کرنے کےدوران پیش آیا۔‘

انہوں نے بتایا کہ امام ڈھیری مدرسے کے سامنے اور دریائے سوات کے کنارے میدان میں ملا فضل اللہ نماز جمعہ کا خطبہ دینے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے تھے۔

اس واقعے کی رپورٹنگ کے لیے طالبان کے ترجمان مسلم خان اور سراج دین ہمیں وہاں لے گئے۔

میدان میں کھانے کی دعوت کا اہتمام بھی کیا گیا جمعہ کی نماز کے بعد ترجمان ہمیں کھلےمیدان میں لے گئے۔ ابھی ہم نے  کھانا شروع ہی کیا تھا کہ گن شپ ہیلی کاپٹر کی آواز سنائی دی، تمام صحافیوں کو کہا گیا کہ فوراً مدرسے میں چلے جائیں۔

رفیع اللہ کہتے ہیں کہ یہ وہ لمحہ تھا جب میں نے پہلی بار  سوچا، ’میں نے تو ابھی زندگی میں کچھ کیا ہی نہیں، میں نے  تو ابھی کام شروع ہی کیا اور نہ ہی اپنا  کوئی مقام بنا سکا، میں تو اس ہی طرح مارا جاؤں گا۔

’اس لمحے تمام صحافی اندر گئے جس کو جہاں جگہ ملی چھپ گیا تاہم، میں نے سوچا کہ ابھی گن شپ سے فائرنگ ہو گی ہم سب مر جائیں گے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا اور ہم صحیح سلامت واپس آگئے۔‘

ملک بھر کے صحافی شدت پسندی کے واقعات کو رپورٹ کرنے کے بعد نفسیاتی تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔

بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ جو صحافی جنرل بیٹ، صحت یا سپورٹس جیسے موضوعات پر رپورٹنگ کرتے ہیں، اسائنمنٹ ایڈیٹر کی ایک فون کال پر وہ بھی شدت پسندی اور جلاؤ گھراؤ جیسے واقعات کی رپورٹنگ  کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

رفیع اللہ کہتے ہیں کہ دوسرا واقعہ بھی بہت خوف ناک تھا۔  ہم مالم جبہ  جا رہے تھے۔ سکیورٹی فورسز نے ہمیں بلایا کہ ساڑھے آٹھ بجے ترجمان بریفنگ دیں گے۔

’سرکٹ ہاؤس میں میڈیا کے سب لوگ انتطار کر رہے تھے۔ بازار میں رش کی وجہ سے گاڑی لیٹ ہو گئی۔ ہم سب صحافی بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ اسی دوران ایک زور دار دھماکہ ہوا۔‘

’جہاں تمام صحافی بیٹھے ہوئے تھے اس جگہ کے تمام شیشے ٹوٹ گئے۔ ہم سب باہر نکلے تو ہر طرف لاشیں تھیں۔ کچہری چوک میں خود کش بمبار صحافیوں کو ٹارگٹ  کرنے آیا تھا اس دوران ڈیوٹی پر مامور ٹریفک پولیس کا اہلکار جان سے چلا گیا۔ یہ ہمارے لیے قیامت صغریٰ جیسا ایک منظر تھا۔‘

ان حالات میں انسان کی ذہنی کیفیت  کیا ہو سکتی ہے؟  

رفیع اللہ کہتے ہیں: ’میں ابھی تک اس کیفیت سے باہر نہیں نکل سکا۔ بعض اوقات جب دوبارہ ایسے حالات سامنے آتے ہیں تو ماضی کے تمام واقعات ایک فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے ہیں اور ذہن پر منفی اثر پڑتا ہے۔‘

’ایک سال بعد پشاور میں ایک ڈاکٹر کو چیک کروایا کہ مجھے غصہ آ جاتا ہے۔ میں ڈاکٹر سے نفسیاتی علاج  کرواتا رہا اس کا کسی کو علم نہیں تھا۔ اس سے مجھ میں کچھ بہتری آئی مگر دوائیں مہنگی اور سفر کی وجہ سے میں نے یہ علاج  درمیان میں ہی چھوڑ دیا تھا۔‘

جب ان سے سوال کیا کہ یہ علاج  ادارے نے کروایا؟ تو رفیع اللہ نے جواب دیا ’ادارہ صرف آپ کو ایک مائیک اور کیمرہ دیتا ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں دیتا۔ پاکستان میڈیا کی یہی بدقسمتی ہے کہ ادارے کارکن کو کچھ نہیں دیتے مگر یہ حکم  ضرور آجاتا ہے کہ فلاں جگہ دھماکہ ہوا ہے اسے کور کریں۔‘

’فیملی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے مجھے اکثر ان باتوں پہ غصہ آ جاتا تھا جو روزمرہ کی ایک چھوٹی سی بات ہوتی تھی۔‘

’میرے بھائی اور والدہ میری یہ حالت  دیکھ کر مجھے صحافت چھوڑنے کا کہتے تھے۔‘ 

صحافی شہزاد نوید کا تعلق بھی ضلع سوات سے ہے اور وہ گذشتہ سات سال سے صحافت سے منسلک ہیں۔

شہزاد نوید نے بتایا کہ ’پاکستان کے نیوز چینل بریکنگ کی دوڑ میں سب سے آگے رہنے کے چکر میں دھماکے کی اطلاع ملتے ہی اپنے رپورٹر کو جائے وقوعہ کی طرف بھگاتے ہیں۔ رپورٹرز اور کیمرہ مین کو فوراً فوٹیج کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔ ان کی سیفٹی کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔

’حال ہی میں سوات میں سیلاب آیا تھا تو چترال اور سوات میں  جب ہم اس کو رپورٹ کرنے گئے تو کسی بھی صحافی کے پاس فرسٹ ایڈ کٹ، نہ سیفٹی جیکٹ اورنہ ہی پانی میں پہننے والے مخصوص جوتے تھے۔ اسی حالت میں وہ صحافی فوٹیج بنانے کے لیے سیلاب میں جاتے تھے۔ اگر صحافی اپنی جان کی پرواہ کرتے تو ادارے کی جانب سے کال آ جاتی تھی کہ ان کو فوٹیج ہر حال میں چاہیے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختوانخوا کی بات کریں تو یہاں صحافیوں کی سیفٹی اور سکیورٹی بہت اہم ہے کیونکہ یہاں سیلاب، زلزلے، دہشت گردی اور ملٹری آپریشن بار بار ہوتے ہیں۔

شہزاد نوید نے بتایا کہ ’حال ہی میں جب طالبان دوبارہ سوات واپس آئے تو میں نے افغانستان اور سوات دونوں علاقوں میں رپورٹنگ کی۔ میں اگرچہ انٹرنیشنل میڈیا کے لیے کام کرتا رہا ہوں۔ جو سکھاتے ہیں کہ آپ کی جان سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے، لیکن کے پی میں کام کرنے والے صحافی اپنی جان کی پرواہ نہیں کرتے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’رپورٹنگ کے دوارن طالبان کا موقف نہیں ملتا تھا جس کی وجہ سے مزید مسئلے بنے۔ کیوںکہ انٹرنیشنل میڈیا میں بیلنس رپورٹنگ کے لیے دونوں فریقوں کا موقف دینا ضروری ہوتا ہے۔

’ہمیں نامعلوم نمبر سے فون کال پر کہا جاتا تھا کہ آپ کے گھر کا پتہ ہے آفس کا پتہ ہے کہاں جاتے ہو کیا کرتے ہو سب پتہ ہے۔ مت کرو جو کر رہے ہو۔

’ان حالات کو دیکھتے ہوئے میں نے آفس کی ٹائمنگ تبدیل کی، فون نمبر تبدیل کیا، اپنی فکر نہیں تھی مگر اپنے گھر والوں کی فکر تھی کوئی فیملی کو ٹارگٹ کرتا تو زیادہ پریشانی ہوتی۔‘

ان کے بقول طالبان نے چند گھنٹے تحویل میں رکھا تو لگا یہ زندگی کا آخری دن ہے ۔

’اس واقعے کے اثرات میرے اور خاندان پر کئی سالوں تک رہے۔‘

سوات سے تعلق رکھنے والے صحافی نیاز احمد خان نے سوات میں طالبان  کے قبضے کے دوران رپورٹنگ کی تلخ  یادوں کا تذکرہ کیا۔ نیاز احمد بین الاقومی ادارے ’مشعل‘ سے منسلک ہیں۔

کہتے ہیں شدت پسندی کے واقعات کی رپورٹنگ کرتا رہا ہوں۔ کام کے آغاز یعنی 2007 سے لے کر اب تک بم دھماکوں، حملوں، فائرنگ اور اغوا کے واقعات کے دوران ادارے کی جانب سے  صحافیوں کی سیفٹی اور نفسیات کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔

نیاز احمد کا کہنا ہے کہ ’اداروں کی جانب سے رپورٹر کو کہا جاتا ہے کہ فلاں جگہ دھماکہ ہوا اس کی فوٹیج اب تک کیوں نہیں بھیجی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’میں آپ کے ساتھ ایک واقعہ شئیر کرتا ہوں۔ یاد ہو کہ ایک جعلی ویڈیو جس میں طالبان ایک خاتون کو کوڑے مار رہے تھے اور خاتون چیخیں مار رہی تھی۔ یہ فوٹیج ایک انٹرنیشنل ادارے کی طرف سے آن ائیر ہو گئی تو مجھے اپنے ٹی وی چینل کی طرف سے کال آئی کہ یہ فوٹیج ادارے کو کیوں نہیں دی؟ میں نے اس  بارے میں اپنے تحفظات ادارے کو ای میل کر کے ادارے کو خیرباد کہہ دیا۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’سوات کے صحافیوں نے بہت قربانیاں دی ہیں مگر ٹی وی چینلز نے کسی صحافی کی سیفٹی کے لیے کبھی کوئی ٹریننگ نہیں دی اور نہ ہی ان کے تحفظ کے لیے کوئی سیفٹی انشورنس کی پالیسی دی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے اپنا پہلا خودکش دھماکے کا واقعہ کور کیا تو ایڈیٹر سے کہا کہ کوئی گھر چھوڑ آئے۔

’اس رات میں کھانا بھی نہیں کھا سکا۔ سوات میں اس وقت اس قدر حالات خراب تھے کہ میں دو دن یہی سوچتا رہا کہ ہر روز ایسی صورت حال سے گزرنا پڑے گا۔ نفسیاتی طور پر اس واقعے کے بعد میری برداشت اور سوچنے کی حس متاثر ہوئی جس کے بعد مجھے بہت غصہ آنا شروع ہو گیا۔‘

2021 میں وفاقی سطح پر ’پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ ادر میڈیا پریکٹیشنرز ایکٹ 2021‘ بنایا گیا تھا، تاہم ایک برس سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی باقی تین صوبوں میں یہ قانون اب تک نہیں بن سکا۔

پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے صحافی کیوں اس قانونی حفاظت سے محروم ہیں؟

اس قانون کے تحت میڈیا کے اداروں کے سربراہان کو پابند کیا گیا تھا کہ صحافیوں کی سیفٹی ٹرینگ لازمی کروائیں۔

حکومت الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے صحافیوں کو ٹریننگ کے لیے تربیتی  ورکشاپ کا انعقاد کریں۔ صحافیوں کو آگاہی ہو کہ وار زون اور تنازاعات میں کیسے رپورٹنگ کرنی ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کے ذاتی خیالات اور تجزیے پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ