پاکستان میں صحافیوں پر حملوں، دھمکیوں میں 60 فیصد اضافہ: رپورٹ

فریڈم نیٹ ورک نے اتوار کو اپنی سالانہ ’پاکستان پریس فریڈم رپورٹ‘ جاری کی جس میں کہا گیا کہ مئی 2022 سے مارچ 2023 تک پاکستان میں آزادی صحافت کی خلاف ورزیوں میں 60 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔

ایک پاکستانی کیمرہ مین 17 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک سکول میں طالبان کے حملے کے ایک دن بعد وہاں کی ویڈیو بنا رہا ہے (فائل فوٹ اے ایف پی)

میڈیا واچ ڈاگ فریڈم نیٹ ورک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں آزادی صحافت کی خلاف ورزیوں کے واقعات میں گذشتہ 11 ماہ کے دوران 63 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ان میں صحافیوں کو دی جانے والی دھمکیاں، گرفتاریوں اور ان پر ہونے والے حملے بھی شامل ہیں۔

رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) کی گذشتہ سال کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ گذشتہ 20 برسوں میں 93 صحافی مارے گئے ہیں۔

عرب نیوز کے مطابق پاکستان میں صحافیوں کی گرفتاریاں، میڈیا سینسرشپ، آن لائن بدسلوکی اور جسمانی حملوں کے واقعات عام ہیں۔

گذشتہ سال اکتوبر میں معروف ٹی وی اینکر ارشد شریف، جو پاکستان کی حکومت اور فوج کے سخت ناقد بھی تھے، کو نیروبی میں کینیا کی پولیس نے گولی مار دی تھی۔

کینیا کی پولیس کا کہنا ہے کہ اپنی جان کو لاحق خطرات کے باعث پاکستان سے فرار ہونے والے صحافی غلط شناخت کی وجہ سے مارے گئے جبکہ بہت سے لوگوں نے ان کے مبینہ قتل پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔

فریڈم نیٹ ورک نے اتوار کو اپنی سالانہ ’پاکستان پریس فریڈم رپورٹ‘ جاری کی جس میں کہا گیا کہ مئی 2022 سے مارچ 2023 تک پاکستان میں آزادی صحافت کی خلاف ورزیوں میں 60 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔

ہرسال تین مئی کو عالمی یوم آزادی صحافت کے تناظر میں جاری ہونے ولی اس رپورٹ میں کہا گیا ’حالیہ مہینوں میں ملکی میڈیا کا ماحول خطرناک اور زیادہ پرتشدد ہو گیا ہے۔ اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ آزادی صحافت کی خلاف ورزیاں 2021-22 میں 86 سے بڑھ کر 2022-23 میں 140 ہو گئیں، جو تقریبا 63 فیصد سالانہ اضافہ ہے۔

فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اقبال خٹک نے کہا کہ پاکستان میں صحافیوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ’پریشان کن ہے اور اس پر فوری توجہ دینی چاہیے۔‘

انہوں نے کہا، ’آزاد صحافت پر حملے ضروری معلومات تک رسائی روکتے ہیں، جو خاص طور پر جاری سیاسی اور معاشی بحرانوں کے دوران نقصان دہ ہے جب عوام کو مسائل کو سمجھنے اور ان کا جواب دینے کے لیے قابل اعتماد خبروں کی ضرورت ہوتی ہے۔‘

رپورٹ کے مطابق 2022-23 میں پاکستان میں ہر ماہ آزادی صحافت کی خلاف ورزی کے اوسطاً 13 واقعات پیش آئے یا ہر تین دن میں کم از کم ایک خلاف ورزی ہوئی جبکہ 2021-22 میں ہر پانچ دن میں ایک بار خلاف ورزی ہوئی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے ’صحافیوں پر حملوں میں 51 (36 فیصد) دست درازی کی گئی، 21 (15 فیصد) حملے جن میں آلات، صحافیوں کے گھروں یا اداروں کے دفاتر کو نقصان پہنچا اور 14(10 فیصد) کیسز میں آف لائن یا آن لائن دھمکیاں موصول ہوئیں، جن میں سات قتل کی دھمکیاں بھی شامل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رپورٹ میں اسلام آباد کو پاکستان میں صحافیوں کے لیے ’خطرناک ترین‘ شہر قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 40 فیصد خلاف ورزیاں (کل 140 کیسز میں سے 56) اسی شہر میں ریکارڈ کی گئیں۔

رپورٹ کے مطابق پنجاب 25 فیصد خلاف ورزیوں (35 کیسز) کے ساتھ دوسرے اور سندھ 23 فیصد (32 کیسز) کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔

سب سے زیادہ حملے ٹی وی میں کام کرنے والوں پر ہوئے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ 11 ماہ کے دوران ایک ٹرانس جینڈر خاتون صحافی سمیت کم از کم آٹھ خواتین میڈیا پروفیشنلز کو نشانہ بنائے جانے کے کم از کم آٹھ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ 21 فیصد کیسز میں متاثرین یا ان کے اہل خانہ کی جانب سے شناخت کیا جانے والے سب سے بڑے خطرہ سیاسی جماعتیں ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ’اسی طرح پریشان کن بات یہ ہے کہ ریاستی اداروں کے عہدیدار دوسرے نمبر پر ہیں، جن کے متعلق شبہ ہے کہ وہ کل 19 فیصد کیسز میں ملوث ہیں۔ باقی دو اہم خطرے ملٹی سورس کیٹیگریز میں سے تھے۔‘

’یہ متفرق ’دیگر‘ تھے (بشمول نجی افراد وغیرہ)۔ 27 فیصد کیسز ان سے منسوب ہیں اور 24 فیصد کیسز کے ساتھ ملٹی سورس ’نامعلوم‘ ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان