پولیس افسران کو گالیاں دینے والا کانسٹیبل نفسیاتی مریض نکلا

سوشل میڈیا پر کانسٹیبل کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں انہیں پنجاب پولیس کے سینیئر افسران کے لیے نامناسب الفاظ استعمال کرتے ہوئے دیکھا اور سنا جا سکتا ہے۔

آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے ویڈیو پیغام میں بتایا کہ مذکورہ کانسٹیبل نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں (ایکس (سابق ٹوئٹر) پنجاب پولیس)  

چند روز قبل ایک پولیس کانسٹیبل کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، جس میں انہیں مائیک تھامے ایک شخص کے ساتھ بدکلامی کرتے اور پنجاب پولیس کے سینیئر افسران کے لیے نازیبا الفاظ استعمال کرتے سنا جا سکتا ہے۔

ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد اس کی کئی ایک میمز بھی سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگیں اور مذکورہ پولیس صارفین کے لیے تفریح کا سامان بن گیا۔ لیکن مذکورہ پولیس اہلکار نفسیاتی مسائل کا شکار نکلا۔

پنجاب پولیس کے سربراہ ڈاکٹر عثمان انور، جو خود کنگ ایڈورڈز میڈیکل کالج کے گریجویٹ ہیں، نے اسی تعلیمی ادارے سے فارغ التحصیل ماہر نفسیات ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) ڈاکٹر انعام وحید کے ہمراہ ایک ویڈیو پیغام جاری کیا، جس میں بتایا گیا مذکورہ پولیس کانسٹیبل کو نفسیاتی مسائل کا سامنا ہے۔

کانسٹیبل کا پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ میں علاج جاری ہے۔

آئی جی ڈاکٹر عثمان انور نے پیر کو کانسٹیبل اور ان کی والدہ اور معالج سے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ میں ملاقات کی۔

پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ میں زیر علاج کانسٹیبل کے معالج ڈاکٹر اسد کے مطابق پولیس اہلکار کو فی الحال الگ رکھا گیا ہے۔ ’اس کا مقصد ہے کہ پولیس اہلکار خود کو یا کسی دوسرے مریض کو نقصان نہ پہنچائے اور ان کی حالت بہتر ہونے پر جلد ہی انہیں الگ کمرے یا وارڈ میں منتقل کر دیا جائے گا۔‘

آئی جی پنجاب ڈاکٹڑ عثمان نے پیر کو انسٹی ٹیوٹ آف پینٹل ہیلتھ میں مذکورہ کانسٹیبل کے ساتھ وقت گزارا اور ان کی والدہ اور معالج سے ملاقاتیں بھی کیں۔

آئی جی پنجاب کی کانسٹیبل، جنہوں نے وائرل ویڈیو میں ان کے لیے بھی نازیبا الفاظ استعمال کیے تھے، کو بغلگیر کرنے کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر دیکھی جا رہی ہے۔

انڈپینڈںٹ اردو سے بات کرتے ہوئے آئی جی پنجاب نے کہا کہ کسی کی بیماری کا مذاق بنانا، الزامات لگانا اور میمز بنانا مریض اور اہل خانہ کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔

آئی جی پنجاب نے پولیس اہلکاروں کے نفسیاتی مسائل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا: 'ہم نے اہلکاروں کی نفسیاتی سکریننگ کا عمل کچھ عرصہ سے شروع کیا ہوا ہے۔ ماضی میں پنجاب کی دو لاکھ پولیس فورس کے ہیپاٹائٹس بی، سی، اور ایچ آئی وی اور دیگر امراض کی سکرینینگ مکمل کی تھی اور متاثرہ افراد کا علاج کی سہولیات فراہم کیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ دو لاکھ افراد پر مستمل پولیس فورس کی نفسیاتی مسائل کی سکریننگ ایک مشکل کام ہے لیکن اسے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’شروع میں ہم نے ان لوگون کو چنا جو ماضی میں نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے یا وہ اہلکار جنہیں محکمانہ سزائیں دی گئیں تھیں۔ کچھ ایسے لوگوں کو بھی سکریننگ سے گزرا جن کی غیر حاضری کی شکایت تھی۔‘

ڈاکٹر عثمان انور کا کہنا تھا کہ نفسیاتی پروفائلنگ کے باعث اکثر پولیس افسران اور اہلکار غیر ضروری خوف کا شکار ہیں۔

’نفسیاتی سکریننگ کا مقصد کسی ملازم کو نقصان پہنچانا یا نوکری سے نکالنا ہرگز نہیں ہے۔ نفسیاتی تشخیص کے نتیجے میں سامنے آنے والے نفسیاتی امراض کے شکار ملازمین کو متعلقہ معالجین کے پاس لے جایا جائے گا۔‘

نفسیاتی پروفائلنگ کے حوالے سے ڈی آئی جی اسٹیبلشمنٹ ڈاکٹر انعام وحید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پولیس فورس کے اہلکاروں کی نفسیاتی پروفائلنگ کا ایک خصوصی پروگرام ڈیزائن کیا گیا ہے، جس میں دوسرے سرکاری و غیر سرکاری اداروں کو بھی شامل کیا جائے گا۔

انعام وحید نے مزید بتایا: ’سکریننگ کے لیے اہلکاروں کا انتخاب چار کیٹگریز کی بنیاد پر ہوتا ہے اور ضرورت کے مطابق دوائیوں یا کونسلنگ کے ذریعے علاج کیا جاتا ہے۔‘

ڈی آئی جی ڈاکٹر انعام وحید کا کہنا تھا: ’نفسیاتی مسائل کے علاج سے گزرنے والے اہلکاروں کی رپورٹس ضلعی ڈی پی او کر بھیجی جائیں گی تاکہ سنگین مسائل کا شکار رہنے والوں کو حساس فرائض سے دور رکھا جا سکے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان