فرانس کے سرکاری سکولوں میں طالبات کے عبایا پہننے پر پابندی

وزیر تعلیم نے کہا ہے کہ فرانس کے سرکاری سکولوں میں طلبہ پر عبایا پہننے پر چار ستمبر سے پابندی ہو گی۔

15 اپریل 2010 کو عبایا میں ملبوس ایک خاتون پیرس کی ایک سڑک پر (اے ایف پی)

فرانس میں سرکاری سکولوں اور سرکاری عمارتوں میں مذہبی علامات پر سخت پابندی ہے اور اسی بنیاد پر فرانس میں سرکاری سکولوں میں 2004 سے ہیڈ سکارف پہننے پر پابندی عائد ہے۔

وزیر تعلیم گیبریل اتل نے فرانس کے TF1 ٹی وی کو بتایا، ’جب آپ کلاس روم میں جاتے ہیں، تو آپ کو صرف شاگردوں کو دیکھ کر ان کے مذہب کی شناخت نہیں ہونی چاہیے۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اب سکولوں میں عبایا نہیں پہنی جا سکتی۔‘

یہ قدم فرانسیسی سکولوں میں عبایا پہننے پر مہینوں کی بحث کے بعد سامنے اٹھایا گیا ہے۔

اے ایف پی کے مطابق سکولوں میں عبایا پہننے میں اضافہ دیکھا جا رہا تھا جو سیاسی تقسیم کی وجہ بن رہی تھی۔ دائیں بازو کی جماعتیں پابندی کے لیے زور دے رہی ہیں جبکہ بائیں بازو کی جماعتوں نے مسلم خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے لیے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

وزیر اتل نے بتایا کہ ’سیکولرازم کا مطلب ہے سکول کے ذریعے اپنے آپ کو آزاد کرنا جب کہ عبایا ایک مذہبی اشارہ ہے، جس کا مقصد اس سیکولر مقدس کے خلاف جمہوریہ کی مزاحمت کو جانچنا ہے جسے سکول تشکیل دینا چاہیے۔‘

انہوں نے کہا کہ موسم گرما کی تعطیلات کے بعد سکول کھلنے سے پہلے وہ قومی سطح پر واضح قوانین دیں گے۔

2010 میں فرانس نے عوام میں پورے چہرے کے نقاب پہننے پر پابندی لگا دی تھی جس کی وجہ سے ملک کی 50 لاکھ مسلم برادری میں غصہ پایا جاتا تھا۔

فرانس نے 19ویں صدی سے سکولوں میں مذہبی علامات پر سخت پابندی عائد کر رکھی ہے، جس میں عوامی تعلیم سے کسی بھی کیتھولک اثر کو روکنے کی کوشش میں عیسائی علامتیں جیسے بڑی صلیب پر بھی پابندی ہے۔ اس کے علاوہ یہودی کپاس اور اسلامی ہیڈ سکارف شامل ہیں۔

2020 میں پیرس کے مضافاتی علاقے میں اپنے سکول کے قریب ایک چیچن پناہ گزین نے استاد سیموئیل پیٹی کا جس نے طالب علموں کو پیغمبر اسلام کے خاکے دکھائے تھے سر قلم کرنے کے بعد سے اسلامی علامات پر بحث میں تیزی آئی ہے۔

یہ اعلان مسٹر اتل کا پہلا بڑا پالیسی فیصلہ ہے، جنہیں صدر ایمانوئل میکروں نے اس موسم گرما میں 34 سال کی عمر میں فرانس کا وزیر تعلیم مقرر کیا تھا۔

کئی مسلم انجمنوں کی نمائندگی کرنے والی ایک قومی تنظیم سی ایف سی ایم نے کہا ہے کہ صرف لباس ’مذہبی علامت‘ نہیں ہیں۔

سر کے سکارف کے برعکس، عبایا -- ایک لمبا، کھلا سا لباس جو اسلامی عقائد کے مطابق پہنا جاتا ہے۔

فرانس 24 چینل کے مطابق یہ اعلان 34 سالہ وزیر کی طرف سے پہلا بڑا اقدام ہے، کیونکہ اس موسم گرما میں انہیں ترقی دے کر انتہائی متنازعہ تعلیمی وزرات دے دی گئی ہے۔

40 سالہ وزیر داخلہ جیرالڈ ڈارمینن کے ساتھ انہیں ایک ابھرتے ہوئے سیاست دان کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو 2027 میں میکروں کے عہدہ چھوڑنے کے بعد ممکنہ طور پر اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لی پیرزین اخبار نے اپنے اداریہ میں ماضی میں لکھا ہے کہ 'وہ 'معمولی لباس' کی بات کرتے ہیں، لیکن یہ اسلام پسند انٹریازم کے ٹروجن گھوڑے کی طرح لگتا ہے۔

عبایا کو ’کبھی برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔ صدر ایمانوئل میکروں کی سینٹرسٹ پارٹی کے رکن اور پارلیمنٹ کے سپیکر یائل براؤن پیویٹ نے بی ایف ایم ٹی وی کو بتایا کہ انہیں سمجھوتہ نہیں کرنا ہوگا۔

وزارت تعلیم کے اعداد و شمار کے مطابق اپریل اور مئی کے درمیان سیکولرازم کی خلاف ورزی کے واقعات میں کمی آئی ہے۔

لیکن مئی میں مذہبی لباس یا علامات پہننے سے متعلق رپورٹ ہونے والے واقعات کا تناسب آدھے سے زیادہ ہو گیا۔

بی ایف ایم ٹی وی نے جنوب مشرقی شہر لیون کے ایک سکول سے خبر دی اور ایک ٹیچر کے حوالے سے جس نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ عبایا پہننے والی لڑکیاں 'دباؤ' پیدا کر رہی ہیں، چاہے وہ نادانستہ طور پر ہی کیوں نہ ہوں۔

فرانس کی نیشنل سکیولرازم آبزرویٹری کی سابق رکن ڈونیا بوزار نے وضاحت کی کہ ٹک ٹاک جیسے آن لائن پلیٹ فارم عبایا کی بڑھتی ہوئی مقبولیت میں اضافہ کرتے ہیں کیونکہ نوعمر لڑکیاں توجہ حاصل کرکے نفسیاتی ضروریات کو پورا کرتی ہیں۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ آن لائن کلپس میں اکثر میک اپ اور میوزک دکھایا جاتا ہے، جو اسلام کی سخت وہابی شاخ کے بالکل برعکس ہے جو زیادہ سخت ڈریس کوڈ کی وکالت کرتی ہے۔

بوزار نے کہا کہ اس کے باوجود ’نسوانی شکلوں کو چھپانے‘ کا مقصد یہ ہے کہ عبایا طالب علموں کو ان کے مذہب کی بنیاد پر شناخت کرتے ہیں اور 2004 کے قانون کے دائرے میں آتے ہیں۔

پیرس کی سائنسز پو یونیورسٹی کے حزل اتائے نے بدنامی اور سیاسی پولرائزیشن کے خلاف متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’پابندی اس کا حل نہیں ہے. ایک زیادہ باریک نقطہ نظر ضروری ہے۔‘

انہوں نے ایک اور سیکولر جمہوریہ ترکی کی طرف اشارہ کیا جہاں خواتین نے سرکاری اداروں میں حجاب پر عائد پابندی سے بچنے کے طریقے تلاش کیے۔

بوزار نے کہا، ’ہمیں ایک ایسی بحث میں نرمی دوبارہ متعارف کرانے کی ضرورت ہے جہاں مقررین دونوں طرف سے زیادہ بنیاد پرست بن رہے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین