پاکستانی انجینیئر جن کی مصنوعات امریکہ اور یورپ جاتی ہیں

فیصل آباد کے محمد محسن اسلم الیکٹریکل انجینئر ہیں اور ان کی کمپنی ’انوینٹر نیسٹ‘ اپنے صارفین کی ضرورت کے مطابق ایسے برقی آلات بناتی ہے جو پہلے سے مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں۔

فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے انجینیئر محمد محسن انڈپینڈنٹ اردو کو انٹرویو دے رہے ہیں۔
(تصویر: نعیم احمد)

محمد محسن اسلم کے زیادہ تر صارفین امریکہ اور یورپ سے تعلق رکھتے ہیں جن کے لیے وہ ملٹی پرپز ڈرونز، سمارٹ فارم مانیٹرنگ اینڈ اریگیشن سسٹم، سمارٹ ڈی ٹیچ ایبل ایڈاپٹر، اینٹی ویپ ڈیوائس اور سمارٹ پاور بینک سمیت متعدد الیکٹرانک ڈیوائسز تخلیق کر چکے ہیں۔

انہوں نے اپنی کمپنی کو پاکستان میں رجسٹرڈ کروا لیا ہے جبکہ امریکہ اورسعودی عرب میں بھی وہ اپنی کمپنی کو رجسٹرڈ کروانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

محسن اسلم نے انڈیپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ 2018 سے اس فیلڈ میں کام کر رہے ہیں اور فائیور کے ٹاپ ریٹڈ فری لانسر بھی رہے ہیں۔

محسن اسلم کہتے ہیں کہ ’اس وقت تک ہم 30 سے زائد پروڈکٹ کامیابی سے تیار کر کے مارکیٹ میں فراہم کر چکے ہیں جو فروخت ہو رہی ہیں۔ ہم نے جو مصنوعات ڈیزائن کی ہیں وہ دنیا بھر کے مختلف گاہکوں کے لیے کی ہیں جن میں امریکہ، برطانیہ ، یورپ، سعودی عرب اور دبئی شامل ہیں۔‘

محسن کے مطابق ان کے زیادہ تر گاہک ایمازون سیلرز ہیں جو ایمازون کے لیے ان سے نئی نئی پروڈکٹس تیار کرواتے ہیں اور پھر انہیں ایمازون پر فروخت کر تے ہیں۔

محسن بتاتے ہیں کہ ’ہم نے جو یہ سمارٹ ڈرون ڈیزائن کیا ہے یہ ملٹی پرپز ڈرون ہے اور یہ کنزیو الیکٹرانکس شو 2023 لاس اینجلس میں بھی پیش کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ ہم نے ڈوگ ٹریننگ سسٹم بنایا ہے۔ اگر آپ کے پاس گھر میں پالتو جانور ہیں اور آپ چاہتے ہیں کہ وہ آپ کی اہم چیزوں کو نہ چھیڑیں تو یہ ہم نے ان کے لیے ڈیزائن کیا ہے۔ یہ بھی ایک بڑا اچھا ہمارا پروڈکٹ ہے جو مارکیٹ میں بہت پسند کیا گیا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ابتک انہیں جس پروڈکٹ کو ڈیزائن کرنے میں سب سے زیادہ مشکل پیش آئی وہ ایک بیوٹی پروڈکٹ تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’یہ ایک ہیئر سٹریٹنر تھا۔ وہ بڑا آسان لگ رہا تھا دیکھنے میں، جس کا فائیو ان ون کا کانسیپٹ تھا۔ بیس اس کی ایک ہی رہنی تھی لیکن اوپر ہیڈز تبدیل ہونے تھے لیکن اس میں ہمیں سب سے زیادہ مسائل آئے اور اسے ڈیزائن کرنا بہت مشکل ثابت ہوا کیونکہ اس کے جو انٹرنیشنل سرٹیفکیشن معیار تھےان کو پورا کرنا بھی ایک مشکل مرحلہ تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی پروڈکٹ کو ڈیزائن کرنے کے لیے وہ پہلے اس کا تجزیہ کرتے ہیں اور پھر دیکھتے ہیں کہ کون کون سے انٹرنیشنل سرٹیفکیشن معیار اس پروڈکٹ پر لاگو ہوں گے اور ان کو کیسے پورا کرنا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’ اگلا مرحلہ ڈیزائن کا ہوتا ہے جس میں ہم انکلوژر ڈیزائننگ کرتے ہیں، پی سی بی ڈیزائننگ کرتے ہیں اور فارم ویئرڈیزائننگ کرتے ہیں۔ اگلے مرحلے میں ہم پروٹو ٹائپ تیار کرتے ہیں۔ پروٹو ٹائپنگ میں ہم پی سی بی فیبریکشن کرتے ہیں، انکلوژر فیبریکشن کرتے ہیں اور اس کے بعد ساری ہارڈ وئیر کی اسمبلنگ کرتے ہیں۔‘

محسن کے مطابق فائنل مرحلہ ٹیسٹنگ کا ہوتا ہے جس میں چیک کیا جاتا ہے کہ جو نتائج درکار تھے وہ حاصل ہو ئے ہیں یا نہیں؟

محسن کے مطابق ’اگر درکار نتائج حاصل نہیں ہوتے تو اسے واپس بھیج دیتے ہیں اور پھر اس کی دوبارہ ٹیسٹنگ ہوتی ہے لیکن اگر ٹیسٹنگ ٹھیک ہو تو پھر وہ پروٹو ٹائپ حتمی منظوری کے لیے گاہک کو بھیج دیا جاتا ہے اور جب گاہک منظوری دیتا ہے تو اسے پروڈکشن یونٹ میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں ماس پروڈکشن سٹارٹ ہو جاتی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ سب سے پہلے تو وہ یہ دیکھتے ہیں کہ کیا یہ پروڈکٹ پاکستان میں بننی ممکن ہے یا نہیں، اور اگر اس کی تیاری پاکستان میں ممکن نہ ہو تو پھر وہ اس کی ماس پروڈکشن چین سے کروا لیتے ہیں جہاں انہوں نے کچھ کمپنیوں کے ساتھ جوائنٹ وینچر کیا ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ طریقہ کار بہت مشکل ہے کیونکہ ابھی تک حکومت کے کسی سیکٹر میں پروڈکٹ ڈیزائن اور ڈویلپمنٹ کے کوئی واضح قوانین موجود نہیں ہیں۔

محسن بتاتے ہیں کہ ’ہمیں اگر اپنا ایک پروٹو ٹائپ کسی بھی ملک میں بھیجنا ہے تو ہمیں اس کی اجازت ہی نہیں ہے۔ ہمیں پھر اس کے لیے غیر قانونی راستے اختیار کرنے پڑتے ہیں جس کے لیے ہمیں سپیڈ منی بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔‘

محسن کے مطابق ان کی زیادہ تر کوشش یہ ہوتی ہے کہ اگر کوئی رشتہ دار یا جاننے والا بیرون ملک جا رہا ہو تو اس کے ذریعے گاہک کو سیمپل بھجوا دیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ کم از کم انہیں سیمپل بھجوانے اوربیرون ملک موجود گاہک سے سیمپل منگوانے کی اجازت دی جائے۔

’اگر کوئی ہمارا گاہک ہمیں کوئی سیمپل بھجواتا ہے تا کہ اسے ریفرنس کے طور پر استعمال کر کے ہم پروڈکٹ ڈیزائن کر سکیں۔ اس کے لیے ہمیں بہت زیادہ ڈیوٹی چارجز ادا کرنے پڑتے ہیں۔

ہمیں ان ڈیوٹیز کو ختم کروانا ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں ’ایز آف ڈوئنگ بزنس‘ کو بہتر بنانا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ پاکستان سے بیرون ملک ڈالرز میں ادائیگی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے ۔ محسن کہتے ہیں کہ فرض کریں مجھے خام مال امپورٹ کرنے کے لیے چین میں ڈالرز بھجوانے ہیں تو وہ ایک بہت لمبا طریقہ کار ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ سب سے پہلے یہ مسئلہ حل کرے۔‘  ان کا کہنا تھا کہ اگر ملک مستحکم انٹرنیٹ مہیا کر دیا جائے تو بہت سے لوگ جو دور دراز علاقوں میں بیٹھے ہیں وہ بھی اس شعبے میں کام کر سکتے ہیں۔

بیرون ملک سے رقم وصول کرنے کے حوالے سے درپیش مشکلات کے بارے میں محسن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پے پال نہ ہونے کی وجہ سے وہ انٹرنیشنل پلیٹ فارم ’پے اونیئر‘ اور ’وائز‘ استعمال کرتے ہیں۔ محسن کے مطابق انہیں بیرون ملک جانے کی بہت سی پیشکش ہوئی ہیں لیکن وہ پاکستان چھوڑنا نہیں چاہتے ہیں۔

محسن کہتے ہیں کہ ’مجھے کینیڈا سے آفر ہے، مجھے امریکہ سے آفر آئی ہوئی ہے ۔ بہت ساری کمپنیوں نے مجھے جوائنٹ وینچرز کی پیشکش کی ہے لیکن ذاتی طور پر مجھے پاکستان میں رہنا پسند ہے۔ میرے گھر والے یہاں پر ہیں، میرے دوست یہاں پر ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر حکومت ہمیں پرموٹ کرنا چاہتی ہے تو میری ان سے ایک درخواست ہے کہ ہمیں ’میڈ ان پاکستان‘ پروڈکٹس بنانے اور فروخت کرنے میں مدد کرے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ فریش گریجوایٹس کو اس فیلڈ میں ضرورآنا چاہیے کیونکہ پاکستان میں یہ ایک نیا شعبہ ہےاور اس میں ترقی کرنے کے بہت زیادہ مواقع میسر ہیں۔

محسن نے بتایا کہ ’انہیں سب سے پہلے ایک گیپ ڈھونڈنا چاہیے جس کو فل کرنے کے لیے وہ مارکیٹ میں آئیں۔ اگر تو وہ پروڈکٹ ڈیزائن اور ڈویلپمنٹ میں آنا چاہتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ بنیادی طور پر کسی ایک ہنر کو سیکھیں مثلاً پی سی بی ڈیزائننر بن جائیں اور اس میں پرو لیول تک جائیں اور اسی طرح اپنی ایک ٹیم بنائیں اور پھر پاکستان میں کام شروع کریں ۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی