روس کا کہنا ہے کہ صدر ولادی میر پوتن ’بہت مصروف‘ ہیں اس لیے وہ آئندہ ماہ انڈیا میں ہونے والے جی20 اجلاس میں شرکت نہیں کر پائیں گے۔
انڈین وزارت خارجہ نے پیر کی شب اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ صدر پوتن نے وزیر اعظم نریندر مودی سے فون پر بات کی ہے جنہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ روسی صدر اس اجلاس میں شرکت کے لیے نئی دہلی کا سفر نہیں کریں گے جس میں برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سنک اور امریکی صدر جو بائیڈن شامل ہوں گے۔
وزارت خارجہ نے کہا کہ نو سے 10 ستمبر تک جاری رہنے والے اجلاس میں صدر پوتن کی بجائے روس کی نمائندگی وزیر خارجہ سرگئے لاوروف کریں گے۔
بیان کے مطابق ’روس کے فیصلے کے بارے میں افہام و تفہیم کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے انڈیا کی صدارت میں ہونے والے اجلاس کے تمام اقدامات کے لیے روس کی مستقل حمایت پر صدر پوتن کا شکریہ ادا کیا۔‘
انٹرفیکس نیوز سروس کے مطابق کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے روسی صدر کی عدم شرکت کے بارے جمعے کو صحافیوں کو بتایا تھا کہ صدر پوتن کا ایک ’مصروف شیڈول‘ ہے جب کہ اس وقت ان کی بنیادی توجہ یوکرین میں روس کی فوجی کارروائی پر مرکوز ہے۔
منگل کو کریملن نے کہا کہ صدر پوتن اور وزیر اعظم مودی نے دو طرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال کیا جو ’خصوصی سٹریٹجک پارٹنرشپ کی روح کے مطابق بتدریج ترقی کر رہے ہیں۔‘
انڈیا کی طرف سے جاری ریڈ آؤٹ میں دونوں ممالک کی شراکت داری کے لیے گرم جوشی پر مبنی ایسے الفاظ استعمال نہیں کیے گئے تاہم اس میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے ’دوطرفہ تعاون کے متعدد امور پر پیش رفت کا جائزہ لیا۔‘
صدر پوتن کی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کی خبر اس وقت سامنے آئی ہے جب نئی دہلی میں اجلاس کی تیاریاں آخری مراحل میں ہیں جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ G20 وفود کا اب تک کا سب سے بڑا اجتماع ہوگا۔
یوکرین پر روس کا حملہ انڈیا کی صدارت میں G20 کے اجلاس کو نتیجہ خیز بنانے میں رکاوٹ ثابت ہو سکتی ہے جس میں امریکی صدر بائیڈن اور کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو سمیت مغربی ممالک کے رہنماؤں کی جانب سے یوکرین میں صدر پوتن کے اقدامات پر سخت ترین مذمت کا مطالبہ سامنے آنے کی توقع ہے۔
حملے کے آغاز کے بعد سے انڈیا روس اور امریکہ دونوں کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھنے میں کامیاب رہا ہے اور اس نے جنگ کی مذمت کے لیے اقوام متحدہ کی متعدد قراردادوں کے دوران غیر حاضر رہنے کا انتخاب کیا۔
ساتھ ہی انڈیا نے مغرب کی زیر قیادت پابندیوں میں شامل ہونے سے گریز کیا ہے۔ انڈیا نے بڑی مقدار میں سستے تیل کی درآمدات اور ماسکو سے ہتھیاروں کی فراہمی کا فائدہ بھی اٹھایا ہے۔
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ ’وہ یوکرین کے صدر ولودی میر زیلنسکی کو بطور مہمان جی 20 میں شرکت کی دعوت نہ دینے پر انڈیا سے ’مایوس‘ ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اس معاملے کو میزبان ملک کے ساتھ اٹھائیں گے۔
وزیر اعظم ٹروڈو نے یوکرین کے یوم آزادی کے موقع پر فون پر بات چیت کے دوران صدر زیلنسکی کو بتایا: ’میں مایوس ہوں کہ آپ کو (جی 20) اجلاس میں مدعو نہیں کیا گیا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’جیسا کہ آپ جانتے ہیں ہم آپ (کی شرکت) کے لیے سختی سے بات کریں گے اور ہم اس بات کو یقینی بناتے رہیں گے کہ دنیا یوکرین کے ساتھ کھڑی ہے۔‘
انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے پہلے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ وزیر اعظم مودی سے درخواست کے باوجود صدر زیلنسکی کو صوابدید کی بنیاد پر یوکرین کو اجلاس میں دعوت نہیں دی گئی۔
انڈیا نے اس کے بجائے سپین، بنگلہ دیش، نائیجیریا، ماریشس، مصر، نیدرلینڈ، عمان، سنگاپور اور متحدہ عرب امارات سمیت نو دیگر ممالک کو سربراہی شرکت کے لیے مدعو کر رکھا ہے۔
اس اقدام کو اقتصادی فورم کے دوران جغرافیائی طور پر تقسیم کرنے والے مسائل کو اتفاق رائے تک پہنچنے کے امکانات کو نقصان پہنچانے سے روکنے کی انڈیا کی کوشش کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈیا کے G20 منتظم امیتابھ کانت نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ یوکرین کی جنگ انڈیا کی G20 کی ترجیحات کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔
کریملن نے ابھی تک اس بات کی تصدیق نہیں کی ہے کہ آیا صدر پوتن ویڈیو لنک کے ذریعے بھی جی 20 سربراہی اجلاس میں حصہ لیں گے یا نہیں۔
یوکرین کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے صدر پوتن نے شاید ہی روس سے باہر قدم رکھا ہو اور انہوں نے گذشتہ ہفتے جوہانسبرگ میں ہونے والے برکس ممالک (برازیل، روس، چین، انڈیا اور جنوبی افریقہ) کے سربراہی اجلاس میں جانے سے گریز کیا تھا۔
ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرنے کے ان کے فیصلے کو بڑی حد تک بین الاقوامی فوجداری عدالت کے جاری کردہ وارنٹ گرفتاری کے نتیجے کے طور پر دیکھا گیا جس پر جنوبی افریقہ نے بھی دستخط کیے ہوئے ہیں۔
روس خود اگلے سال برکس سربراہی اجلاس کا میزبان ہو گا جب اس گروپ کی رکنیت میں مزید چھ ممالک شامل ہوں گے۔
منگل کو صدر پوتن نے ایک بار پھر نریندر مودی کو انڈیا کے کامیاب چاند مشن کے لیے مبارک باد پیس کی۔ انڈیا حال ہی میں چندریان 3 کے ساتھ چاند کے گمنام جنوبی قطب کے قریب سافٹ لینڈنگ کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بنا تھا۔
کریملن نے اپنے بیان میں کہا: ’ولادی میر پوتن اور نریندر مودی نے کہا کہ دونوں ممالک کے تجارتی اور اقتصادی تعاون نے مثبت نتائج کا مظاہرہ کیا اور بڑے پیمانے پر توانائی کے منصوبوں کو نافذ کرنے اور بین الاقوامی ٹرانسپورٹ اور لاجسٹکس کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لیے مل کر کام کرنے کے مشترکہ ارادے کا اظہار کیا۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ دونوں ممالک نے برکس کی توسیع کی اہمیت پر تبادلہ خیال کیا جو بلاشبہ بین الاقوامی معاملات میں اس بلاک کے اثر و رسوخ میں اضافہ کرے گا۔
© The Independent