انڈین سپنرز کے خلاف پاکستانی بلے بازوں کی ’حیرت انگیز‘ پسپائی

انڈین ٹیم کے سپنرز نے جس مہارت سے بابر اعظم اور ٹیم کو منجمد کر دیا تھا اس نے بلے بازوں کی اہلیت پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔

پاکستانی کپتان بابر اعظم 11 ستمبر 2023 کو ایشیا کپ کے ایک میچ میں انڈیا کے حلاف بیٹنگ کرتے ہوئے ایک شاٹ کھیل رہے ہیں (اے ایف پی)

ایشیا کپ کے سپر فور میچ میں انڈیا کے خلاف جس طرح پاکستانی بیٹنگ ریت کی دیوار ثابت ہوئی اس نے کرکٹ کی معمولی سی سوجھ بوجھ رکھنے والے کو بھی حیران کر دیا ہے۔

انڈین ٹیم کے سپنرز نے جس مہارت سے بابر اعظم اور ٹیم کو منجمد کر دیا تھا اس نے بلے بازوں کی اہلیت پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔

پاکستان کے بلے باز شروع سے سپنرز کو بہت عمدہ کھیلتے آئے ہیں۔ ماضی کے عظیم بلے بازوں سے لے کر دور حاضر تک، سپنرز کبھی بھی مشکلات پیدا نہیں کرسکے ہیں۔

لیکن انڈیا کے خلاف میچ میں ایک ایسی وکٹ پر جہاں بلے بازی انتہائی آسان تھی اور رنز کے انبار لگ سکتے تھے پاکستانی بلے باز سوکھے پتوں کی طرح بکھرتے چلے گئے اس نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔

پاکستانی کیمپ میں حالیہ میچ کے بعد سنسنی پھیل گئی ہے کیوں کہ ورلڈ کپ سر پر کھڑا ہے اور ایسی ہی پچوں پر کھیلا جائے گا جہاں سپنرز کے لیے جنت ہوگی اگر بیٹنگ کا یہی حال رہا تو فائنلز تک کا سفر مشکل ہوجائے گا۔

بیٹنگ نااہل ہے یا غیر ذمہ دار؟

انڈیا کے خلاف میچ میں خراب کارکردگی کی وجہ تو انڈین سپنرز تھے جنہوں نے روایتی حریف کو مٹی چٹانے میں اہم کردار ادا کیا لیکن فاسٹ بولرز نے بھی پاکستانی بلے بازوں کو نچادیا تھا۔

پاکستانی اوپنرز امام الحق اور فخر زمان نے جس طرح پاور پلےمیں بیٹنگ کی اس سے ایسا لگتا تھا کہ ناتجربہ کار فوجیوں کو محاذ جنگ پر بھیج دیا گیا ہے اور پھر وہ لڑنے کے بجائے بس خود کو بچا رہے ہیں۔

فخر زمان جو جارحانہ بیٹنگ کے لیے شہرت رکھتے ہیں ان کی آج کی بیٹنگ کسی ٹیل اینڈر سے زیادہ نہیں لگ رہی تھی۔

50 گیندوں پر 27 رنز تو کسی ٹیسٹ میچ میں بھی آج کل نہیں ہوتے جبکہ ایک روزہ میچ میں یہ بیٹنگ تھی۔ فخر زمان کے لیے اس وقت گیند بلے پر لینا ناممکن ہوگیا تھا جب جسپریت بمراہ بولنگ کر رہے تھے۔

بمراہ نے اس ہی پچ پر دو دو فٹ سوئنگ کی جس پر شاہین شاہ آفریدی سوئنگ کرنے سے قاصر رہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امام الحق کی مختصر اننگز میں اعتماد تھا اور نہ صورتحال کے مطابق بیٹنگ۔ امام ویسے تو کمزور ٹیموں کے خلاف رنز کے انبار لگا دیتے ہیں لیکن کل کے میچ میں وہ چاروں خانے چت ہوگئے۔

بابر اعظم جیسا ورلڈ کلاس نمبر ایک بلے باز بھی انڈین بولنگ کے سامنے بے بس تھا۔ بابر ایک ایسی گیند پر آؤٹ ہوئے جس میں گیند کی خوبی کے بجائے کمزور تکنیک تھی۔

محمد رضوان کے لیے بار بار کہا جاتا رہا ہے کہ وہ نمبر چار کے بلے باز نہیں ہیں لیکن بابر اعظم کی ہٹ دھرمی نے اس پوزیشن پرکسی کو رکنے ہی نہیں دیا۔

رضوان اس اہم پوزیشن کے نہ اہل ہیں اور نہ واحد کھلاڑی۔ رضوان زیادہ تر فرنٹ فٹ پر کھیلتے ہوئے اپنا توازن کھو دیتے ہیں اور کل بھی اسی طرح آؤٹ ہوئے۔

سلمان آغا اگرچہ بہتر کھیل رہے تھے لیکن بڑے ہدف کے دباؤ اور عمدہ سپن بولنگ نے انہیں بد حواس کردیا تھا۔ شکست کے دہانے پر پہنچنے کے لیے جو کسر رہ گئی وہ افتخار کی بیٹنگ نے پوری کر دی۔

افتخار احمد کی مسلسل ناکامیوں کے باوجود بابر اعظم انہیں کھلانے پر مصر ہیں حالاں کہ وہ کسی بھی بڑی ٹیم کے خلاف کبھی کوئی اننگز نہیں کھیل سکے ہیں۔

شاداب خان کی کارکردگی ہر نئے میچ میں گرتی جا رہی ہے۔ وہ جس طرح کل کھیل رہے تھے اس سے ایسا لگتا تھا کہ شکست تسلیم کر چکے ہیں۔ ان کی بیٹنگ میں نہ توجہ تھی اور نہ ہدف کی فکر۔

فہیم اشرف جنہیں فنشر کے طور پر ٹیم میں شامل کیا گیا ہے انہیں آخری وکٹ گرنے تک فنشنگ لائن کا ہی نہیں پتہ تھا۔ ویسے بھی جب اوپر کے بلے باز دھوکہ دے گئے تو وہ کیا کرتے؟

شکست کا ذمہ دار کون ہے؟

انڈین ٹیم جو ایک ہفتہ قبل پاکستانی بولنگ کے سامنے جدوجہد کررہی تھی آخر کیا ہوا کہ اچانک اسی بولنگ کا حلوہ بنانے پر تل گئی؟

جن بلے بازوں کو پاکستانی فاسٹ بولرز کی گیند نظر نہیں آرہی تھی وہ آج کریز سے باہر نکل کر شاٹ مار رہے تھے۔ وراٹ کوہلی تو ماسٹر بلے باز ہیں۔ ان کا ذکر تو چھوڑیے۔ اپنے زخموں سے نجات حاصل کرکے واپس آنے والے کے ایل راہول کی بات کیجیے جنہیں میچ کھلانے پر مینیجمنٹ راضی نہیں تھی، کپتان روہت شرما کی ضد پر کھلایا گیا تھا، انہوں نے کمال دکھا دیا۔

راہول کو صرف پریکٹس کے لیے شامل کیا گیا تھا وہ پاکستانی بولرز کے لیے جلاد بن گئے۔

دونوں کی 233 رنز کی شراکت نے صرف اننگز نہیں میچ کا نقشہ بدل دیا۔ ان کی بیٹنگ کے آخری لمحات میں پاکستانی بولرز اورکپتان ہمت ہار چکے تھے اور خود کو کھیل کے دھارے پر چھوڑ دیا تھا۔

اگر بولنگ سے بیٹنگ تک کا عمیق تجزیہ کیا جائے تو کپتان بابر اعظم اس شکست کے ذمہ دار ہیں۔ ٹاس جیت کر پہلے خود بیٹنگ نہ کرنا، غلطی تھی۔ ’ایک ایسی پچ جس پر گھاس کا وجود نہ ہو اور بارش کا خطرہ ہو، وہاں پہلے بولنگ کرنا دیوانے کی بڑ ہی ہوسکتا ہے۔ عقلمند کی روش نہیں!‘

پھر وہ بولنگ میں اس دباؤ کو استعمال نہ کرسکے جب دو کھلاڑی ایک دم آؤٹ ہو چکے تھے اور کوہلی اور راہول پریشان تھے لیکن شاداب خان کی بے تکی سپن بولنگ نے دونوں کو اعتماد بخش دیا۔

پاکستان نے ٹیم سلیکشن میں فاش غلطی کی اور سری لنکا کے ماحول کو جاننے کے باوجود ایک سپیشلسٹ سپنر نہیں کھلایا۔ جبکہ بے جان پچ پر فہیم اشرف کو کھلا کر ضائع کیا۔

کیا دوستیاں نبھائی جارہی ہیں؟

انڈیا کے میچ کے بعد سابق ٹیسٹ کرکٹرز نے بابر اعظم کی کپتانی پر سخت تنقید کی ہے اور سوشل میڈیا نے اسے دوستیاں نبھانا قرار دیا ہے۔

فخر زمان، فہیم اشرف اور حارث رؤف کو کھلانے پر سخت تنقید ہو رہی ہے۔ حارث رؤف کی فٹنس انتہائی مشکوک ہے۔ وہ چار اوورز کے بولر ہیں ان کی فٹنس کسی بھی طرح ایک روزہ میچ کی نہیں ہے۔

اگرچہ انڈیا کے خلاف گذشتہ میچ میں سب سے زیادہ وکٹیں لیں تھیں لیکن اس میچ میں ان کی وکٹوں کا راز شاہین شاہ اور نسیم شاہ کا دباؤ تھا۔ جس نے دوسرے اینڈ سے حارث کو وکٹیں دلادئی تھیں۔

فخر زمان مسلسل ناکام ہو رہے ہیں۔ ان کا بیٹ ان کے دماغ کے حساب سے ساتھ نہیں چل رہا ہے۔ وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہیں کیوں کہ ٹائمنگ میں فرق آگیا ہے۔ فٹ ورک تو ان کا کبھی درست تھا ہی نہیں۔

پاکستان کو عبداللہ شفیق کو کھلانا چاہیے تھا لیکن ان کی کامیابیاں بابر کو پسند نہیں ہیں۔ مڈل آرڈر میں سعود شکیل کی اشد ضرورت ہے لیکن اپنی عمدہ فارم کے باوجود وہ کپتان کی گڈ بک میں نہیں ہیں اور باہر سے یاس و حسرت کا اشتہار بنے ہوئے ہیں۔

کیا پاکستان وننگ ٹریک پر آسکتا ہے؟

پاکستان کے لیے اپنی تاریخ کی دوسری بڑی شکست اگرچہ رسوائی کا سبب تو بن گئی ہے لیکن ورلڈ کپ سے پہلے خبردار کر دیا ہے۔ پاکستان کو جیت کے لیے اپنا کمبینیشن درست کرنا ہوگا۔ اوپننگ میں فخر زمان کی جگہ عبداللہ شفیق کو لانا ہوگا۔

مڈل آرڈر میں چوتھے نمبر پر سعود شکیل کو کھلانا ہوگا تاکہ بیٹنگ مضبوط ہو۔ پاکستان کو ایک کل وقتی سپنر شامل کرنا ہوگا۔

شاداب خان کی بولنگ میں نہ کاٹ ہے اور نہ بریک۔۔۔ جس سے وہ پارٹ ٹائم بولر بن گئے ہیں۔ افتخار کی جگہ اسامہ میر کو کھلایا جاسکتا ہے جتنے رنز افتخار کرتے ہیں اسامہ اس سے زیادہ تو کر ہی لیں گے۔

پاکستان ٹیم کو نسیم شاہ اور حارث رؤف کی عدم دستیابی کا بھی سامنا ہے۔ اس لیے وسیم جونیئر کے لیے جگہ بن سکتی ہے۔

پاکستان کو آج کی شکست کے بعد سری لنکا کے خلاف بھی خبردار رہنا ہوگا کیوں کہ سپنرز کے خلاف کمزوری نے لنکنز کے حوصلےجوان کردیے ہوں گے جہاں سپنرز کی لائن لگی ہوئی ہے۔

جمعرات کو سری لنکا سے میچ مشکل ثابت ہوسکتا ہے۔ لیکن فائنل تک پہنچنےکے لیے انہیں زیر کرنا لازمی ہوگا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے تازہ اعلان کے مطابق بولرز شاہ نواز دھانی اور زمان خان کو ’بیک اپ‘ کے طور پر طلب کیا گیا ہے۔ ان دونوں کو حارث رؤف اور نسیم شاہ کے ’بیک اپ‘ کے طور پر بلایا گیا ہے جنہیں انڈیا کے خلاف میچ میں معمولی انجریز ہوئی تھیں۔

پی سی بی کے اعلامیے کے مطابق: ’یہ اگلے ماہ ہونے والے آئی سی سی مینز کرکٹ ورلڈ کپ سے قبل کھلاڑیوں کی فٹنس اور تندرستی کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف ایک احتیاطی اقدام ہے۔‘

حارث اور نسیم ٹیم کے میڈیکل پینل کی نگرانی میں رہیں گے۔ ٹیم انتظامیہ اے سی سی کی ٹیکنیکل کمیٹی سے صرف اس صورت میں متبادل کی درخواست کرے گی جب نسیم یا حارث کو اگلے سات دنوں کے لیے باہر کردیا جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ