پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے نے فلائٹ آپریشنز جاری رکھنے کے لیے فنڈز کی کمی کا جواز بنا کر حال ہی میں پانچ طیارے گراؤنڈ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ دوسری طرف مختلف شعبوں میں نئی بھرتیوں کے ٹینڈر بھی جاری کیے ہیں۔
پی آئی کی جانب سے جاری کردہ ٹینڈر میں پائلٹس، فضائی میزبان، فلائٹ اسٹیورڈز، آئی ٹی اہلکاروں سمیت 210 آسامیوں کے لیے درخواستیں مانگی گئی ہیں۔
ترجمان پی آئی اے عبداللہ حفیظ خان نے انڈپینڈنٹ اردو کے رابطہ کرنے پر بتایا: ’پی آئی اے نے چند روز قبل فنڈز کی کمی کے باعث لیز پر لیے گئے طیاروں میں پانچ طیاروں کو گراؤنڈ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
عبداللہ حفیظ خان نے کہا کہ طیارے گراؤنڈ ہونے کے باعث قومی ایئر لائن کے بعض انٹرنیشنل آپریشنز متاثر ہو سکتے ہیں، جن میں ریاض، دمام اور جدہ جانے والی فلائٹس شامل ہیں۔
’پی آئی اے کی اکثر فلائٹس سعودی عرب اور مشرق وسطی کے دوسرے ملکوں کو جاتی ہیں۔‘
انہوں نے واضح کیا کہ پانچ طیاروں کے گراؤنڈ ہونے سے دوسرے ملکوں کے آپریشنز بشمول براعظم امریکہ کو جانے والی فلائٹس متاثر نہیں ہوں گی۔
طیاروں کو گراؤنڈ کرنے کی وجہ سے متعلق سوال پر عبداللہ حفیظ خان کا کہنا تھا: ’فنڈز کی کمی کے باعث پی آئی اے غیر ملکی کمپنیوں سے حاصل کیے گئے جہازوں کی لیز کی رقم دینے سے قاصر ہے اور اسی لیے مجبوراً طیارے گراؤنڈ کیے گئے۔‘
فنڈز کی کمی کے باوجود نئی اسامیوں سے متعلق سوال پر ترجمان پی آئی اے نے کہا کہ طیارے لیز کی رقوم نہ ہونے کے باعث گراؤنڈ کیے گئے اور پیسے دستیاب ہونے پر انہی جہازوں کا استعمال دوبارہ شروع ہو جائے گا۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ قومی ایئر لائن کو چلانے اور روزمرہ کے آپریشنز کے لیے عملے کی ضرورت ہوتی ہے۔
عبداللہ حفیظ خان نے کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2017 سے پی آئی اے میں نئی بھرتیوں پر پابندی عائد کر رکھی تھی، جبکہ کئی ملازم ریٹائر ہوئے اور کئی ایک کو ملازمتوں سے نکالا گیا۔
’پی آئی اے کو ملازمین خاص طور پر پائلٹس کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ اس لیے نئی اسامیوں کے ٹینڈر جاری کیے گئے۔‘
انہوں نے کہا کہ نئی اسامیاں پر کرنے میں کم از کم آٹھ مہینے لگ سکتے ہیں۔
گراؤنڈ ہونے والے طیاروں کے مستقبل سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ترجمان قومی ایئر لائن نے بتایا کہ پی آئی اے کے لیے 11 ارب ڈالر کے قرض کی منظور ہو چکی ہے اور یہ رقم کچھ عرصے میں کمپنی کو مل جائے گی۔
’اس رقم کے ملتے ہی گراؤنڈ کیے گئے طیارے کی لیز ادا کر کے انہیں دوبارہ آپریشنل بنا دیا جائے گا۔‘
گذشتہ ہفتے وفاقی وزارت ہوا بازی نے نگران حکومت کو متنبہ کیا تھا کہ قومی ایئر لائین پر قرض دہندگان، طیارے لیز، ایندھن اور کمپنیز، انٹرنیشنل اور ڈومیسٹک ایئرپورٹ آپریٹرز اور انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (آئی اے ٹی اے) کے واجب الادا بقایاجات کے باعث کمپنیاں پی آئی اے کو بوئنگ ٹرپل سیون اور ایئربس کے سپیئر پارٹس کی سپلائی ستمبر کے وسط تک بند ہو سکتی ہے۔
ایسی صورت میں پی آئی اے کو مزید طیارے گراؤنڈ کرنا پڑ سکتے ہیں۔
اگست میں فیڈرل بیورو آف ریونیو (ایف بی آر) نے آٹھ ارب کے واجبات کی ادائیگی نہ کرنے پر پی آئی اے کے 13 بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیے تھے۔
پی آئی اے کے طیارے
پی آئی اے نے دنیا کی مختلف کمپنیوں سے 15 طیارے لیز پر حاصل کیے ہوئے ہیں اور یہ تعداد پانچ جہازوں کے گراؤنڈ ہونے کے بعد 10 رہ جائے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سابق وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان نے 2022 میں قومی ایئر لائن کے جہازوں کی تفصیلات قومی اسمبلی میں جمع کرائی تھیں۔
اس وقت کے وفاقی وزیر کی مہیا کردہ تفصیلات کے مطابق اس سال جولائی تک پی آئی اے کے پاس 34 طیارے تھے، جن میں سے تین ناقابل مرمت تھے۔
سابق وفاقی وزیر کے جواب کے مطابق پی آئی اے کے 12 بوئنگ ٹرپل سیون، 12 ایئربس اے 320، پانچ اے ٹی آر 72 اور پانچ اے ٹی آر 42 طیارے تھے، جن میں سے ایک اے ٹی آر 72 اور دو اے ٹی آر 42 ناقابل مرمت تھے۔
قومی ایئر لائن کی ریسٹرکچرنگ
قومی ایئر لائن کے ترجمان کے مطابق پی آئی اے کی ریسٹرکچرنگ کا فیصلہ گذشتہ حکومت نے اپنے آخری ایام میں کیا تھا، تاہم منصوبے کی منظوری ملنا ابھی باقی ہے۔
عبداللہ حفیظ خان نے بتایا کہ ریسٹرکچرنگ کے لیے ایک انٹرنیشنل کنسلٹنٹ مقرر کیے جانے کے علاوہ تمام معاملات دیکھنے کی غرض سے ایک ہولڈنگ کمپنی بنائی جائے گی، جس کا پی آئی اے ایک ذیلی ادارہ بن جائے گا۔
’اس سارے عمل میں وقت درکار ہوگا اور دیکھنا ہو گا کہ نگران حکومت پی آئی اے کی ریسٹرکچرنگ کا عمل شروع کرتی ہے یا یہ کام نئے حکمرانوں کے لیے چھوڑا جاتا ہے۔‘
وزارت ہوابازی نے حال ہی میں خدشہ ظاہر کیا تھا کہ پی آئی اے کی ریسٹرکچرنگ کا پیچیدہ عمل مکمل ہونے میں کم از کم آٹھ مہینے لگ سکتے ہیں اور اس دوران قومی ایئر لائن کے حصص کی بہتر قیمت حاصل کرنے کے لیے ریسٹرکچرنگ کے دوران پی آئی اے کو مکمل طور پر آپریشنل رہنا ہو گا۔