کیا پاکستان کو اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے چاہییں؟

دونوں ممالک میں کئی مماثلتیں ہیں۔ دونوں 1947 میں مذہبی اور دو قومی نظریے کی بنیاد پر قائم ہوئے لیکن ایک دوسرے سے آغاز سے دور ہیں اور باضابطہ کبھی تعلقات قائم کرنے کی کوشش نہیں کی۔

ماضی قریب میں کسی پراسرار اسرائیلی طیارے اور کسی خاص مہمان کے پاکستان آنے اور کچھ گھنٹے رکنے کی خبریں بھی پاکستان میں گردش کرتی رہی تھی جن کی حکومت نے سختی سے تردید کی تھی۔(سوشل میڈیا)

پاکستان میں خلیجی ریاست متحدہ عرب امارات کی جانب سے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو قومی اعزاز دینے پر غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ایسے میں سماجی ویب سائٹس اور مقتدر حلقوں میں بحث چل نکلی ہے کہ کیا پاکستان کو جذبات کو ایک جانب رکھتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ سفارتی و تجارتی تعلقات کا آغاز کر دینا چاہیے؟

دونوں ملکوں میں کئی مماثلتیں ہیں۔ دونوں 1947 میں مذہبی اور دو قومی نظریے کی بنیاد پر قائم ہوئے لیکن اس کے باوجود دونوں ایک دوسرے سے ہمیشہ دور ہی رہے اور باضابطہ کبھی تعلقات قائم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس وقت جب پاکستان کشمیر پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی چال کا جواب تلاش کر رہا ہے تو اس میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بات بھی اٹھائی جا رہی ہے۔

لیکن سابق پاکستانی سفیر عبد الباسط مختلف رائے رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحث کشمیر کے مسئلے سے توجہ ہٹانے کی ایک کوشش ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہر چیز کا مناسب وقت ہوتا ہے اور ابھی اسرائیل سے تعلق قائم کرنے کا مناسب وقت بالکل بھی نہیں ہے۔ ’اس وقت اگر اسرائیل سے تعلق قائم کیا گیا تو اس سے یہ پیغام جائے گا کہ پاکستان نے متحدہ عرب امارات اور بھارت تعلقات کے ردعمل میں یہ قدم اُٹھایا ہے۔‘

سابق سفیر نے کہا کہ اس موقعے پر اسرائیل کے پاکستان سے تعلقات پر بحث کرنے سے کشمیر کا معاملہ پس پردہ چلا جائے گا۔ تمام فوکس اس وقت کشمیر ہے اور اسی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ ابھی اس موقعے پر ایسا کچھ سوچا جا رہا ہے۔

خلیجی ممالک سے متعلق پالیسی امور کے ماہر منصور جعفر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اگر اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے فلسطینی زمین پر اس کا قبضہ بھی تسلیم کر لیا ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ ’ایسی صورت میں کشمیر پر پاکستان کا موقف کمزور ہو جائے گا۔‘ 

پاکستان اسرائیل سے تعلقات قائم کیوں نہ کر سکا؟

ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کے اب تک اسرائیل سے تعلقات قائم نہ کر سکنے کی تین وجوہات ہیں۔

  • پاکستان عرب مسلم ممالک کے ساتھ مذہبی یکجہتی
  • دنیا بھر میں قدامت پسند مسلمان تنظیموں کی جانب سے منفی ردعمل کا خدشہ
  • ملک کے اندر سیاسی عدم استحکام اور مذہبی گروپوں کے ردعمل کا خوف

لیکن بھارت کے ساتھ پاکستان کی دشمنی اور مسئلہ کشمیر کے باوجود عرب ممالک کے بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات نے اس رائے کو بھی جنم دیا ہے کہ جب عرب پاکستان کے دشمن ملک سے ہاتھ ملا سکتا ہے، ایوارڈ دے رہا ہے تو پاکستان کسی کی لڑائی کی وجہ سے ایک اضافی دشمن کیوں پالے؟ پاکستان کو بھی اپنی سفارتی پوزیشن مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

بین الاقوامی امور کے ماہر اور تدریسی شعبے سے وابستہ سلمان بیٹانی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خارجہ پالیسی جذبات کی بنیاد پر نہیں بلکہ قومی مفاد کی خاطر بنانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ پاکستان کے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے پہلے بھی کام ہو چکا ہے لیکن پاکستان میں عوام نے اس حوالے سے موقف اختیار کر رکھا ہے جس کی وجہ یہ تعلق استوار کرنا ایک چیلنج ہے۔ اور موجودہ حالات کے تناظر میں تعلقات قائم کرنا شاید موافق نہیں ہو گا۔

سفارتی و دفاعی تجزیہ کار قمر چیمہ نے کہا کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے اور نظریاتی ریاست ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’بے شک عرب دنیا کشمیر کے معاملے پر ہمارے ساتھ کھڑی نہیں ہوئی لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اس موقع پر دباؤ میں آ کر اسرائیل سے تعلقات بنا لیے جائیں اور نہ حکومت ابھی کچھ ایسا سوچ سکتی ہے۔‘

اسرائیل کو تسلیم کرنے سے پاکستان کو کیا فائدہ ہو گا؟

سلمان بیٹانی نے کہا کہ پہلی بات تو یہ کہ بھارت نے پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہ ہونے کا بہت فائدہ اٹھایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اسرائیل پاکستان سے تعلقات قائم کرتا ہے تو اسے جنوبی ایشیا کی سیاست میں توازن رکھنا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہونے کی وجہ سے شاید پاکستان فلسطین کے لیے بھی مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے وزیر اعظم نے جب ہندوستان کا دورہ کیا تو ترغیب دلانے کے باوجود انہوں نے پاکستان کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا تھا۔

سفارتی تجزیہ کار قمر چیمہ نے کہا کہ زیادہ تر اسلامی ریاستیں اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کیے ہوئے ہیں تو پاکستان کو کیا مسئلہ ہے؟ اگر پاکستان کی سیاسی قیادت اور عوام بھی اس بات کو بہتر سمجھتی ہے تو تعلق قائم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاک اسرائیل تعلق قائم ہونے سے پاکستان کا ترقی پسند ہونے کا تاثر ابھرے گا۔

اسرائیل سے تعلقات کا پاکستان کو کیا نقصان ہو گا؟

سابق سفیر عبد الباسط نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں عوامی رائے اور ردعمل کی بہت اہمیت ہے۔ سنہ 2005 میں سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے بھی پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ان کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ سوچا جا رہا ہے کہ اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے سے بھارت کے ساتھ تعلق بہتر ہوں گے یا کشمیر کا مسئلہ حل ہو گا تو یہ خام خیالی ہے۔ دوسری بات یہ کہ پاکستان عرب ممالک اور ایران کو ناراض کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

بین الاقوامی امور کے ماہر سلمان بیٹانی نے کہا کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو اسرائیل سے تعلقات کا کوئی نقصان ہو گا، لیکن ملک کے اندر اور اندرونی سیاست میں اس بات پر سخت ردعمل آ سکتا ہے۔ خصوصاً عوام اور مذہبی حلقے اس کی مخالفت کریں گے جس سے نمٹنا حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔‘

قمر چیمہ نے کہا کہ پاکستان اسرائیل تعلق قائم ہونے کا صرف اندرونی نقصان ہے۔ ’عوام میں حکومت کی مقبولیت میں کمی ہو سکتی ہے اور عوام کا دباؤ بڑھ سکتا ہے جو کہ ملک میں انتشار پیدا کر سکتا ہے۔ لیکن ایسا اسی صورت میں ممکن ہے اگر تمام سیاسی جماعتیں ایک صفحے پر موجود ہوں۔‘

ماضی میں اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کی کوششیں

ماضی قریب میں کسی پراسرار اسرائیلی طیارے اور کسی خاص مہمان کے پاکستان آنے اور کچھ گھنٹے رکنے کی خبریں بھی پاکستان میں گردش کرتی رہی تھی جن کی حکومت نے سختی سے تردید کی تھی۔

اس سے قبل صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی خواہش کی خبریں آئی تھیں اور اس وقت کے پاکستانی وزیرِ خارجہ خورشید قصوری نے اپنے اسرائیلی ہم منصب سلون شالوم سے ملاقات بھی کی تھی جس کے بعد خود جنرل مشرف نے نیویارک میں اقوامِ متحدہ کے اجلاس کے موقعے پر اس وقت کے اسرائیلی وزیرِ اعظم ایریل شیرون سے ہاتھ ملایا تھا اور تصویریں کھنچوائی تھیں۔

اسی دوران شالوم نے ایک پاکستانی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل نے پاکستان کو کبھی بھی اپنا دشمن نہیں سمجھا اور نہ ہی اس نے کبھی انڈیا کے ساتھ مل کر پاکستان کی ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے پر غور کیا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات قائم کرنی کی سب سے پہلے خواہش 1947 میں اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم نے بانی پاکستان محمد علی جناح کو ایک ٹیلیگرام لکھ کر کی تھی لیکن اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا تھا۔ 2013 میں برطانیہ کے محکمہ تجارت نے الزام لگایا تھا کہ اسرائیل نے پاکستان کو عسکری ٹیکنالوجی دی ہے جس کی پاکستان نے سختی سے تردید کی تھی۔

ماہرین کے مطابق شاید موجوہد حالات میں اسرائیل کے ساتھ فوری تعلقات کا قیام ممکن نہ ہو لیکن اس پر تفصیلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا