انڈین اپوزیشن کا ’شور مچانے والے اینکرز‘ کے بائیکاٹ کا اعلان

حزب اختلاف کے سیاست دانوں نے الزام لگایا ہے کہ یہ ’شور مچانے‘ والے نیوز ٹاک شوز بی جے پی کے ایجنڈے کے تحت کام کر رہے ہیں جس میں مسلم اور مسیحی اقلیتوں کے خلاف مہم چلانا بھی شامل ہے۔

یکم فروری 2020، انڈین شہر امرتسر میں سکھ کسان ایک نیوز چینل پر انڈین پارلیمان کی کارروائی دیکھ رہے ہیں(اے ایف پی/نریندر ننو)

انڈیا میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد نے ملک کے کئی ٹیلی ویژن چینلز کے نیوز اینکرز کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا ہے جن پر وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت کے ’نفرت اور تعصب پھیلانے والے ایجنڈے‘ کی حمایت کا الزام ہے۔

2014 میں مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے سماجی کارکنوں اور انسانی اور صحافتی حقوق کے گروپس نے ملک میں آزادی صحافت کو لاحق خطرے کے حوالے سے خبردار کیا ہے۔ 

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق حزب اختلاف کے سیاست دانوں نے الزام لگایا ہے کہ یہ ’شور مچانے‘ والے نیوز ٹاک شوز بی جے پی کے ایجنڈے کے تحت کام کر رہے ہیں جس میں مسلم اور مسیحی اقلیتوں کے خلاف مہم چلانا بھی شامل ہے۔

کانگریس پارٹی کے ترجمان پون کھیرا نے جمعرات کو ایک ویڈیو بیان میں کہا: ’ہم نفرت سے بھرے اس بیانیے کو جائز نہیں بنانا چاہتے جو ہمارے معاشرے میں بگاڑ پیدا کر رہا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم نفرت کے ان شو رومز میں حصہ نہیں لیں گے۔‘

کانگریس دو درجن سے زیادہ پارٹیوں کے اس اتحاد میں شامل ہے جو اگلے سال ہونے والے عام انتخابات سے قبل بی جے پی کو متحد ہو کر شکست دینے کی امید کر رہا ہے۔

اپوزیشن بلاک نے کہا کہ اس کے ارکان ان 14 اینکرز کے پروگراموں میں شرکت نہیں گے جن میں انڈیا کی کچھ مشہور ٹی وی نیوز شخصیات بھی شامل ہیں۔

ہنگامہ خیز اور جنگی جنون سے بھرے مباحثے انڈیا کے قومی نشریاتی اداروں کا ایک اہم حصہ ہیں جہاں بعض اوقات ایک درجن یا اس سے زیادہ پینلسٹ عوامی توجہ حاصل کرنے کے لیے آن سکرین لفظی گولہ باری بلکہ ہاتھا پائی تک پہنچ جاتے ہیں۔

حزب اختلاف کی جماعتیں طویل عرصے سے ان نیٹ ورکس پر غیر جانبداری کے بنیادی معیارات پر عمل کرنے میں ناکامی اور غیر منصفانہ اور منفی سرگرمیوں کا الزام لگا رہی ہیں۔

’آج تک‘ نیوز چینل سے وابستہ سدھیر چودھری، جن کا نام بائیکاٹ میں شامل ہے، نے اپوزیشن اتحاد کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ ان کا بائیکاٹ اس لیے کیا جا رہا ہے کیوں کہ انہوں نے ان (اپوزیشن رہنماؤں) کے ’جوتے چاٹنے‘ سے انکار کر دیا تھا۔

انہوں نے یہ بھی خبردار کیا کہ اپوزیشن کے قانون سازوں کی جانب سے تنقیدی سوالات کا سامنا کرنے سے انکار نے خبر رساں اداروں کو ’خطرناک صورت حال‘ میں ڈال دیا ہے۔

ادھر میڈیا آؤٹ لیٹس کی نمائندگی کرنے والے ادارے نیوز براڈکاسٹرز اینڈ ڈیجیٹل ایسوسی ایشن (این بی ڈی اے) نے کہا کہ بائیکاٹ ’جمہوریت کے ضابطہ اخلاق کے خلاف‘ ہے۔

ادارے نے ایک بیان میں کہا: ’یہ عدم برداشت کی نشاندہی کرتا ہے اور آزادی صحافت کو خطرے میں ڈالتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اںڈیا آزادی صحافت کے حوالے سے بدترین ممالک میں سے ایک‘

مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے عالمی صحافتی تنظیم ’رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘ (آر ایس ایف) کی عالمی آزادی صحافت کی درجہ بندی میں انڈیا 21 پوائنٹس کی کمی کے بعد اب 180 ممالک کی فہرست میں 161 ویں نمبر پر ہے۔

اب حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو جیل کی ہوا کھانا پڑتی ہے اور اکثر سوشل میڈیا پر بی جے پی کے حامیوں کے ہاتھوں ٹرولنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انڈین بزنس ٹائیکون گوتم اڈانی، جو وزیر اعظم مودی کے دیرینہ ساتھی ہیں، نے گذشتہ سال غیر جانبدار سمجھے جانے والے نیوز چینل این ڈی ٹی وی کو خرید لیا تھا۔

رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے اس سودے کو انڈیا میں مین سٹریم میڈیا میں ’اجتماعیت‘ کے خاتمے کا اشارہ قرار دیا۔

بی جے پی کے سوشل میڈیا کے انچارج امت مالویہ نے کہا کہ ’اپوزیشن کا بائیکاٹ ان اینکرز کی مقبولیت میں اضافہ کرے گا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’یہ بائیکاٹ ان اینکرز کے لیے فخر کی بات ہے، انہیں مزید طاقت ملے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا