انڈیا کے وزیراعظم کی حیثیت سے اپنی نو سالہ مدت کے دوران جب بھی نریندر مودی نے خود کو مشکل میں گھِرا پایا ہے تو انہوں نے بدنیت سیاسی رہنماؤں کے لیے ہر ممکن آخری پناہ گاہ میں ٹھکانہ ڈھونڈا۔ اس پناہ گاہ کا نام قوم پرستی ہے۔
لیکن اب جب کہ عام انتخابات میں ایک سال سے بھی کم وقت رہ گیا ہے اور جن کے بعد مودی کا بوریا بستر گول ہو سکتا ہے، مودی کو ایک خاص قسم کی مشکل درپیش ہے۔
انڈیا کی مختلف الخیال اپوزیشن جماعتیں نہ صرف ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونے میں کامیاب ہوئی ہیں بلکہ انہوں نے اپنے اتحاد کا نام بھی ’انڈیا‘ رکھا ہے۔ یہ نام عجیب و غریب انداز میں بنائے گئے’انڈین نیشنل ڈویلپمنٹ انکلوسیو الائنس‘ کا مخفف ہے۔ حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ ’اب انڈیا مودی کو شکست دے گا۔‘
مودی نے چند ہفتے ہوشیاری سے بنائے گئے اس مخفف کے خلاف بات کرنے میں گزارے۔ انہوں نے اسے کم پرکشش نام قرار دینے کی کوشش کی۔ انہوں نے یہ کہنے کی کوشش کی کہ دہشت گردوں نے بھی اپنے نام میں انڈیا کا لفظ استعمال کیا ہے، لہٰذا یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
جب ان کا کوئی بس نہ چلا تو اب انہوں نے بڑا قدم اٹھایا اور کہا کہ ملک کو سرکاری طور پر ’بھارت‘ کہا جائے، جیسا کہ ہندی میں انڈیا کو کہا جاتا ہے۔
وی وی آئی پی دعوت نامے میں نفاست سے کی گئی تبدیلی کے ساتھ شروع کی گئی چالاکی اب ایک شعوری سیاسی بیانیے کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما نہ صرف یہ اصرار کر رہے ہیں کہ ملک کو انڈیا کی بجائے ’بھارت‘ کہا جائے بلکہ انڈیا کے نام کو’برطانوی سامراجی میراث‘ قرار دے کر اس کا مذاق اڑا رہے ہیں حالاں کہ بلاشبہ ایسا نہیں ہے۔
چند سال قبل مودی حکومت نے خود ہی ملک کا نام انڈیا سے باضابطہ طور پر تبدیل کر کے کچھ اور رکھنے کے مطالبات مسترد کر دیے تھے، لیکن آج سیاسی وجوہات کی بنا پر ان دونوں ناموں (انڈیا اور بھارت) کے درمیان جنگ کی لکیریں کھینچ دی گئی ہیں۔
اداکاروں کاروباری شخصیات، کھلاڑیوں اور دیگر لوگوں پر بھارت کے نام کی حمایت کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
بلاشہ آئینی اور قانونی لحاظ سے اور مقبول زبان میں یہ بحث احمقانہ ہے۔
ملک کے نام کے طور پر استعمال ہونے والا لفظ انگریزی میں ’انڈیا‘ جبکہ تمل اور بعض دوسری انڈین زبانوں میں ’ان-دی-یا‘ ہے۔ ہندی، مراٹھی اور بہت سی دوسری زبانیں ’بھارت‘ کا لفظ استعمال کرتی ہیں۔
اردو اور کشمیری بولنے والے ’ہندوستان‘ (’ہندستان‘ کی مختلف شکل) کہتے ہیں۔ یہ نام آپس میں تبدیل ہو سکتے اور ان کا انحصار اس زبان پر ہے جو آپ بولتے ہیں۔
عوامی بول چال اور روزمرہ کی گفتگو میں ان میں سے دو یا یہاں تک کہ تینوں نام سننا خلاف معمول بات نہیں ہے۔
انڈین آئین کا آرٹیکل ایک انڈیا اور بھارت کے ناموں کو تسلیم کرتا ہے اور سرکاری روایت یہ رہی ہے کہ بولی یا لکھی جانے والی زبان کے اعتبار سے کسی بھی نام کا استعمال کر لیا جائے۔
سرکاری دستاویزات جیسے سرکاری گزٹ (جس میں سرکاری نوٹیفکیشن چھاپے جاتے ہیں) میں ، دونوں نام بالترتیب رومن اور ناگری رسم الخط میں استعمال ہوتے ہیں۔
یہ یقینی طور پر ملک کا نام استعمال کرنے کا منطقی اور باعزت طریقہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس وقت مودی سرکار ان دونوں ناموں کو گڈمڈ کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر ’انڈیا کے وزیراعظم‘ کو ’بھارت کے وزیراعظم‘ کہنے کی کوئی تُک نہیں بنتی۔ چینی انگریزی زبان میں ’چنگوا کے صدر‘ نہیں لکھتے۔ ہنگری والے ’میاروساگ کے صدر‘ نہیں لکھتے۔
انڈیا کے مقابلے میں بھارت کہنا محض ایک سیاسی چال نہیں ہے بلکہ اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی کو اپنی طاقت پر، بلکہ میں تو کہوں گا کہ اپنی حب الوطنی پر بھروسہ نہیں ہے۔
یہ بات سب جانتے ہیں کہ بی جے پی کے سیاسی آباؤ اجداد نے انگریزوں کے خلاف آزادی کی جدوجہد میں حصہ نہیں لیا تھا۔ ان کے خیال میں اس مشکل وراثت سے نمٹنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ آزادی کے لیے لڑنے والے حقیقی لوگوں کو انگریزوں کا کاسہ لیس کہہ کر ان کی اہمیت کم کی جائے (انگریزی کا استعمال جاری رکھنے اور اب ’انڈیا‘ نام کو ترک نہ کرنے پر) اور انہیں مسلمانوں کو ’خوش کرنے والوں کے طور‘ پیش کیا جائے، جو اب ایک صدی سے زیادہ عرصے سے ہندو قوم پرستوں کا حقیقی اور دائمی ہدف ہیں۔
مودی نام کے کھیل میں کس حد تک جائیں گے؟ ملک کے لیے انڈیا کو بطور نام مکمل طور پر ترک کرنے کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ اس مقصد کے لیے وہ ملک کے ان بہت سے حصوں کو الگ تھلگ کیے بغیر آگے نہ بڑھ سکیں، جو اپنی زبانوں میں انڈیا کو ملک کے نام کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
کچھ بھی ہو ہمیں یقین ہے کہ مودی حزب اختلاف کے خلاف اپنی لڑائی میں انڈیا کے مقابلے میں بھارت کے نام کا استعمال کریں گے۔
بھلے ہی اس کا مطلب یہ ہو کہ ان کا ملک اور اس کے لوگ اپنی شناخت کا احساس کھو دیں، جسے انہوں نے دہائیوں اور اس سے بھی زیادہ عرصے میں پروان چڑھایا ہے۔
نوٹ: سدھارتھ ورادرجن دا وائر کے بانی ایڈیٹر ہیں۔
© The Independent