پاکستان کے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78ویں اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کے لیے نیو یارک پہنچ گئے ہیں لیکن اس مرتبہ کے اجلاس میں پانچ میں سے چار مستقل ویٹو پاور ممالک کے اہم رہنما شرکت نہیں کر رہے ہیں۔
خبررساں ادارے اے پی کے مطابق دو سال تک کورونا وائرس کی وبا، پھر یوکرین میں روس کی جنگ اور ساتھ میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عالمی رہنماؤں کے ہر اجلاس میں موسمیاتی تبدیلی، غربت اور عدم مساوات کے خطرات میں مسلسل اضافے پر بات کے سائے تلے تازہ اجلاس ہو رہا ہے۔
78 واں اجلاس پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے ماہرین کے مطابق کوئی ایک واضح بحران حاوی نہیں ہے، کیونکہ ان سب میں سے کوئی بھی حل نہیں ہوا اور توجہ طلب ہیں۔
یہ اعلیٰ سطحی اجلاس جاری جنگ، مغربی افریقہ اور لاطینی امریکہ میں نئے سیاسی بحران، طویل عرصے سے جاری کورونا وائرس، معاشی عدم استحکام، بڑھتی ہوئی عدم مساوات اور تباہ کن زلزلوں، سیلابوں اور آگ کی شکل میں تازہ قدرتی آفات کے پس منظر میں ہوگا۔
اس بےچینی کے پیش نظر، اس سال کے عام مباحثے کا موضوع ’اعتماد کی بحالی اور عالمی یکجہتی کو بحال کرنا: 2030 کے ایجنڈے پر کارروائی میں تیزی لانا اور سب کے لیے امن، خوشحالی، ترقی اور پائیدار ترقیاتی ہدف‘ ہوگا۔
پاکستانی وزیر اعظم جمعہ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کریں گے۔
اسلام آباد میں جاری ایک سرکاری بیان کے مطابق وزیراعظم اپنے خطاب میں جموں و کشمیر کے تنازعے سمیت مختلف علاقائی اور عالمی امور پر پاکستان کا نقطہ نظر پیش کریں گے۔ پاکستان کے مطابق مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر دیرینہ حل طلب تنازعات میں شامل ہے۔
وزیر اعظم حکومت کی طرف سے معیشت کی بحالی کے اقدامات اور اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری میں تیزی لانے کی کوششوں پر بھی روشنی ڈالیں گے۔ نیو یارک میں اپنے قیام کے دوران وزیراعظم عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی کریں گے۔ وہ موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں ایک اہم کانفرنس میں بھی شرکت کریں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیراعظم عالمی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بھی بات چیت کریں گے اور ممتاز امریکی تھنک ٹینکس کا دورہ کریں گے۔
اجلاس میں شرکت کے لیے امریکہ روانگی سے قبل ایک نجی ٹیلی ویژن چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مسئلہ کشمیر سے متعلق پاکستان کاموقف بھرپور اندازمیں پیش کریں گے۔
انہوں نے کہاکہ اقوام متحدہ نے پہلے ہی کشمیر کے متنازعہ علاقے کی قسمت کافیصلہ رائے شماری سے کرانے کاوعدہ کیا ہوا ہے۔
توقع ہے کہ کم از کم 145 ممالک کے سربراہان مملکت اور حکومت ڈائس سنبھالیں گے۔ ان میں پاکستان کے علاوہ برازیل کے صدر لوئیز اناسیو لولا دا سلوا، امریکی صدر جو بائیڈن اور یوکرائن کے صدر ولادی میر زیلینسکی بھی ہوں گے۔
روسی حملے کے بعد سے اقوام متحدہ میں زیلنسکی کی یہ پہلی حاضری ہوگی - 2022 میں جنرل اسمبلی نے انہیں پہلے سے ریکارڈ شدہ تقریر نشر کرنے کی خصوصی اجازت دی تھی۔
لیکن ان مقررین میں کچھ اہم غیر حاضریاں بھی قابل ذکر ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان - فرانس، برطانیہ، چین اور روس - کے رہنما شرکت نہیں کریں گے۔ ایمینوئل میکروں اور برطانوی وزیر اعظم رشی سنک اپنی مصروفیات کی وجہ سے نہیں آ رہے ہیں۔
بھارتی وزیر اعظم بھی اجلاس میں شرکت نہیں کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیراکرم نے کہاہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس پاکستان کو تنازعہ کشمیر، افغانستان کے بحران، اسلام مخالف پروپیگنڈے، مشرق وسطیٰ کے مسئلے، ماحولیات اور معیشت سمیت بنیادی عالمی مسائل کے بارے میں اپنا نکتہ نظر پیش کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔
پی ٹی وی کو ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر مختلف کانفرنسوں کا انعقاد بھی ہوگا جن میں پائیدارترقیاتی اہداف کے بارے میں سربراہ کانفرنس، ماحولیات کے بارے میں سربراہ کانفرنس اور وبائی امراض سے بچاؤ، عالمی سطح پر طبی سہولتوں کی فراہمی اور ٹی بی کے مرض کے بارے میں سربراہ کانفرنسیں شامل ہیں جن سے ان بنیادی مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔
پاکستانی مندوب نے کہا کہ یہ دنیاکی تاریخ میں ایک نازک موقع ہے کہ ایشیا میں بڑی طاقتوں کے درمیان کشیدگیوں میں اضافہ ہوگیا ہے اور کورونا اور ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ایشیائی ریاستوں کی اقتصادی صورت حال بگڑ گئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ترقی پذیرملک کے طور پر جنرل اسمبلی میں ہماری بھرپور توجہ شمالی ممالک کی طرف سے ترقی پذیرممالک کے ساتھ ماحولیاتی معاہدوں کویقینی بنانے پر مرکوز ہوگی جو ماحولیاتی اثرات کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
بحث کے دوران رکن ممالک کو جواب کا حق استعمال کرنے کی بھی اجازت ہے، جس میں وہ عام بحث کے دوران ہونے والی تنقید کو رد کر سکتے ہیں۔ یہ اکثر دن کے اختتام پرگرما گرم تبادلے ہوتے ہیں، لیکن یہ عام طور پر سربراہان مملکت یا حکومت کے سربراہان کے ذریعے نہیں کیے جاتے ہیں - بلکہ کسی ملک کے وفد کے نچلے درجے کے اراکین جواب دیتے ہیں۔
نگران وزیر خارجہ کی امریکہ میں ملاقاتیں
پاکستان کے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر اپنے ڈنمارک اور نیدرلینڈز کے ہم منصبوں سے الگ الگ ملاقاتیں کیں، جن میں باہمی دلچسپی کے امور، تجارت، دو طرفہ تعلقات، علاقائی اور بین الاقوامی پیش رفت اور بعض یورپی ممالک میں اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ڈنمارک کے ہم منصب لارس لوکے راسموسن سے ملاقات کے دوران نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے ڈنمارک اور پاکستان کے درمیان جوائنٹ ایکشن پلان کے ذریعے گرین فریم ورک انگیجمنٹ معاہدے پر عمل درآمد پر اتفاق کیا۔
نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے ڈنمارک کی حکومت کی جانب سے ایک بل پیش کرنے کے فیصلے کا خیرمقدم کیا، جس کے تحت قرآن مجید اور دیگر مقدس کتابوں کو نذر آتش کرنے کو غیر قانونی قرار دیا جائے گا۔
ہالینڈ کے وزیر خارجہ ہانکے برونز سلاٹ سے ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے دونوں ممالک کے درمیان 75 سال پر محیط دوستانہ تعلقات کو اجاگر کرتے ہوئے تجارت، سرمایہ کاری، زراعت، ڈیری، واٹر مینجمنٹ اور آئی ٹی کے شعبوں میں تعاون کو مزید مستحکم کرنے کا عزم کیا۔